احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
اور یہ لوگ محمد(ﷺ) کو نرغہ میں لے کر شہید کر دیں۔ اس طرح شہید کا خون مختلف قبیلوں میں تقسیم ہو جائے گا اور قصاص کسی پر بھی عائد نہ ہوگا اور بنو ہاشم خواہ کتنے ہی بہادر ہوں تمام قبائل کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ یہ تجویز منظور کر لی گئی۔ کفار یہ منصوبے باندھ رہے تھے کہ حضور اکرمﷺ پر ہجرت کا حکم نازل ہوگیا۔ دوپہر کا وقت تھا۔ لوکی شعلہ افشانیوں نے زمین کو جہنم زار بنادیا تھا۔ لوگ گرمی سے بچنے کی خاطر تنگ وتاریک کوٹھریوں میں پناہ گزین تھے۔ شہر مکہ پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اس چلچلاتی دھوپ میں حضور اکرمﷺ گھر سے باہر نکلے اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے قیام گاہ پر پہنچے۔ ان سے آپﷺ نے فرمایا کہ ہجرت کا وقت آپہنچا ہے۔ صدیق اکبرؓ کے لئے یہ بات خلاف توقع نہ تھی۔ وہ پہلے سے ہی یہ حکم سننے کے منتظر بیٹھے تھے۔ صدیق اکبرؓ نے عرض کیا کہ حضورﷺ کا رفیق سفر کون ہوگا۔ حضورﷺ نے فرمایا آپؓ۔ یہ سنتے ہی حضرت صدیق اکبرؓ کا پیمانہ مسرت لبریز ہوکر چھلکنے لگا اور آپؓ کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں ہوگئے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے عرض کیا یارسول اﷲﷺ میں نے پہلے ہی سے دواونٹنیاں خرید کر رکھی ہیں اور ان کی خوب پرورش کی گئی ہے۔ ان میں سے ایک اونٹنی آپ کی نذر کرتا ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایا مجھے یہ عطیہ تو منظور ہے۔ لیکن ایک شرط پر وہ یہ کہ جب تک اس کی قیمت نہ ادا کر لوں۔ حضورﷺ کے اصرار پر مجبوراً حضرت صدیق اکبرؓ کو اونٹنی کی قیمت وصول کرنی پڑی۔ اتنے میں حضرت صدیق اکبرؓ کی دو صاحبزادیوں (حضرت اسمائؓ اور حضرت عائشہؓ) نے ستو اور دوسری کھانے پینے کی چیزیں مہیا کیں اور سفر کی تیاری مکمل ہوگئی اور قرار پایا کہ جب رات کی تاریکی فضائے مکہ پر چھا جائے گی تو مدینہ کو چل پڑیںگے۔ اسی رات کفار مکہ نے اپنی تجویز کو عملی جامہ پہنانا تجویز کیا تھا۔ انہوں نے سرشام ہی سے حضور اکرمﷺ کے دولت خانہ نبوت کاشانہ کا محاصرہ کرلیا۔ ان کا خیال تھا کہ پچھلی رات کو جب آپ نماز وعبادت کے لئے باہر نکلیںگے تو قریشی تلواروں کی پیاس رسالت مآبﷺ کے خون سے بجھائی جائے گی۔ وہ رات بھر تلواریں چمکاتے رہے۔ لیکن جناب محمد مصطفیﷺ کا خدا اپنے محبوب کو ان تمام سازشوں سے آگاہ کر چکا تھا۔ حضورﷺ آدھی رات کو اٹھے اور اپنے بستر پر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو سلادیا۔ اہل مکہ کی جتنی امانتیں آپﷺ کے پاس تھیں۔ وہ بھی ان کے سپرد کر دیں اور فرمایا کہ علیؓ! تم میرے بستر پر سورہو اور صبح ہوتے ہی امانتیں حقداروں تک پہنچا دینا اور اس کے بعد میرے نقش قدم پر عازم مدینہ ہو جانا۔