احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
سیلاب کسی طرح سے رک نہ سکا۔ بالآخر مکہ مکرمہ میں آنحضرتﷺ، حضرت صدیق اکبرؓ، حضرت علی کرم اﷲ وجہ الکریم کے سوا کوئی بھی مسلمان باقی نہ رہا۔ البتہ مسلمانوں کے خالی مکان پڑے تھے جو اپنے سابق مکینوں کے لئے چشم براہ تھے۔ آخر وہ دن بھی آپہنچا جس کے متعلق اقبال مرحوم نے کہا ہے ؎ ہے ترک وطن سنت محبوب الٰہی جبریل علیہ السلام نے حضور اکرمﷺ کو بھی ہجرت کا پیغام دیا۔ اس پیغام کا باعث کیا تھا۔ اس کی بھی ضروری تفصیل سناتا ہوں۔ جب کفار مکہ نے دیکھا کہ اسلام کی روشنی مدینہ منورہ میں پہنچ چکی ہے اور اگر اس روشنی پر جبر کا پردہ نہ ڈالا گیا تو سارے جزیدہ نما عرب میں آفتاب اسلام کی شعائیں پھیل جائیںگی۔ وہ انتہائی سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ اسلام کا منبع محمدﷺ ہی کی ذات ہے۔ اس لئے آپ ہی کو ٹھکانے لگادیا جائے۔ لیکن بنی ہاشم کی تلواریں ان کے تصور میں چمک رہی تھیں۔ اس لئے آنحضرتﷺ پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن ابوجہل کا دل انتقام وعنادگی آگ سے لبریز ہوچکا تھا۔ جس کے شعلے اس کے ہر سانس میں لپک رہے تھے اور یہی گرمی اسے آنحضرتﷺ کی مخالفت پر آمادہ کر رہی تھی۔ اس نے تمام قبیلوں کے نمائندوں کی ایک کانفرنس منعقد کی۔ جس میں بنوہاشم کے علاوہ تمام اکابر مکہ شریک ہوئے۔ کانفرنس کی صدارت کے لئے ایک سن رسیدہ ’’نجدی‘‘ کو بلایا گیا۔ جو اس زمانہ میں سازش انگیزی کے فن کا ماہر تھا۔ اس جلسہ میں اس مسئلہ پربحث ہوئی کہ محمدﷺ اور ان کے دین سے اہل عرب کو کسی طرح محفوظ رکھا جائے۔ کسی نے کہا محمد(ﷺ) کو زنجیروں میں جکڑ دیا جائے تاکہ ان کی راہ آزادی مسدود ہوجائے۔ کسی نے کہا کہ تنگ وتاریک کوٹھری میں بند کیا جائے تاکہ کوئی شخص ان کی آواز کو ہی نہ سن سکے اور انہیں بھوکا وپیاس کی اذیتیں دے کر اس دنیا سے رخصت کر دیا جائے۔ شیخ نجدی نے تمام باتیں غور سے سنیں اور کچھ سوچ کر کہنے لگا کہ یہ کام تو ہو سکتا ہے۔ لیکن جس وقت بنوہاشم کے انتقامی ہاتھ اٹھے تو کیا کروگے؟ وہ قید خانہ کو توڑ کر محمد(ﷺ) کو آزاد کرالیںگے۔ اس پر ایک شخص بولا محمد(ﷺ) کو مکہ سے نکال دیا جائے۔ شیخ نجدی نے یہ مشورہ بھی پسند نہ کیا۔ آخر کار ابوجہل بولا بہتر یہی ہے کہ تمام قبیلوں سے ایک ایک بہادر منتخب کیا جائے