احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
نیز الہام ہوتا ہے۔ ’’ان یطفؤا نور اﷲ بافواہہم واﷲ متم نورہ ولوکرہ الکافرون‘‘ یعنی دشمن ارادہ کریںگے کہ اپنے منہ کی پھونکوں سے خدا کے نور کو بجھا دیں اور خدا اپنے نور کو پورا کرے گا۔ اگرچہ کافر کراہت کریں۔ (حقیقت الوحی ص۸۹، خزائن ج۲۲ ص۹۲) بتاؤ! اگر مرزاقادیانی کے ذریعہ بھی خدا کے نور کا اتمام مقدر تھا تو آپ کو کس کا خوف ہوسکتا ہے۔ مرزائیو! کیا مرزاقادیانی نے اپنے باوا جان کی طرف سے یہ الہام درج نہیں کیا ہے کہ ’’واﷲ یعصمک من الناس‘‘ یعنی اﷲ مجھے (مرزا) لوگوں کی دشمنی اور عداوت سے بچا لے گا۔ (انجام آتھم ص۶۰، خزائن ج۱۱ ص۶۰) ’’یعصمک من الاعدائ‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۰، خزائن ج۲۲ ص۹۳) یعنی اے مرزا خدا تجھے دشمنوں کے شر سے بچائے گا۔ سچ بتاؤ ’’الیس اﷲ یکاف عبدہ‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۱، خزائن ج۲۲ ص۹۳) یعنی اے مرزا، اﷲ اپنے بندہ کے لئے کافی ہے۔ دوستو! بتاؤ باوجود اس قدر قوی اور محکم وعدوں کے مرزاقادیانی کیوں ڈرتے تھے۔ بھائیو! کیا خدا کا یہ وعدہ نہ تھا ’’انی معک ومع اہلک‘‘ (حقیقت الوحی ص۹۶، خزائن ج۲۲ ص۹۹) یعنی اے مرزا میں تیرے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں۔ دوستو! انصاف سے کام لو۔ کیا مرزاقادیانی نے یہ نہیں کہا کہ خدا کے نبی اس کے راستے میں جان دینے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ (جنگ مقدس ص۲۹) اگر تمام امور سچ ہیں اور خدا نے مرزاقادیانی کی حفاظت کا ذمہ لے لیا تھا اور تسلی بارش کی طرح الہامات کر چکا تھا اور اگر واقعی خدا مرزاقادیانی کا قدردان تھا تو درحقیقت مرزاقادیانی کے لئے کافی تھا۔ اگر یہ سب باتیں تھیں تو پھر مرزاقادیانی کو خدا کی باتوں پر یقین کیوں نہ تھا اور آپ حج کو کیوں نہ تشریف لے گئے؟ آخر کون سی وجہ ایسی لاحق ہوگئی تھی؟ ہم دیکھتے ہیں کہ عجیب وغریب خدا کے بندے جن پر حج فرض بھی نہیں۔ بڑی بڑی مشقتوں سے زادراہ جمع کر کے اور ہزاروں میل پیدل سفر کر کے حج کرآتے ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی پر بقول ان کے حج فرض، سفر کے لئے