احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
۔ مگر چونکہ حدیث کے ماتحت مسیح نہیں تھے۔ اس لئے خدا کی حکمت نے بقول آپ کے زادراہ اور بضاعت سے محروم رکھ کر اس امر پر مہر توثیق لگادی کہ فی الحقیقت مسیح موعود نہ تھے اور یہی عین حقیقت ہے۔ پس ؎ ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا مرے حق میں زلیخا نے کیا خود چاک دامن ماہ کنعاں کا مرزائی عذر نمبر۲ دوسرا عذر مرزائی حضرات کی طرف سے یہ پیش کیا جاتا ہے کہ حضرت مرزاقادیانی کو خوف تھا اور عدم امن کے باعث وہ فریضہ حج ادا نہ کر سکتے تھے۔ تمام لوگ بلکہ بادشاہ بھی آپ کے مخالف تھے۔ چونکہ امن بھی شرائط حج میں داخل ہے۔ اس واسطے عدم ادائے حج قابل اعتراض نہیں۔ تردید: یہ عذر بجائے خود آپ اپنا جواب ہے۔ بھلا نبوت اور ڈر، دو متضاد چیزیں ایک جگہ کس طرح اکٹھی ہوسکتی ہیں؟ اس سے زیادہ اور کیا خوشی ایک نبی کے لئے ہوسکتی ہے کہ وہ خدا کی راہ میں اپنی جان دے دے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور اکرم سید عالمﷺ نے فرمایا۔ ’’اقتل فی سبیل اﷲ ثم احی ثم اقتل ثم احی ثم اقتل‘‘ یعنی اے خدا میں اس سے زیادہ اور کوئی دوامی عزت نہیں سمجھتا کہ میں تیرے راستے میں قتل ہو جاؤں۔ بلکہ میری خواہش ہے ضرور قتل ہو جاؤں۔ پھر زندہ ہوں۔ پھر قتل ہو ں۔ پھر زندہ ہوں پھر قتل کیا جاؤں۔ سبحان اﷲ یہ ہے شان نبوت۔ حضرات! اب ذرا مرزائی عذر لنگ پر نظر ڈالئے کہ مرزاقادیانی کو جان کا خوف تھا۔ اس لئے قادیان میں دم دبا کر بیٹھ رہے اور مکہ مکرمہ یامدینہ طیبہ کا منہ نہ دیکھ سکے۔ آپ کا دعویٰ دیکھئے۔ توبہ کہ میں آنحضرت ﷺ کا ظل (سایہ) ہوں۔ ’’ولا حول ولا قوۃ الا بااﷲ العلی العظیم‘‘ مرزائی دوستو! مرزاقادیانی کا الہام ہے۔ ’’انی لا یخاف لدی المرسلون کتب اﷲ لا غلبن انا ورسلی‘‘ میرے قرب میں میرے رسول کسی دشمن سے نہیں ڈرا کرتے۔ خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیںگے۔ (حقیقت الوحی ص۷۲، خزائن ج۲۲ ص۷۵)