احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
مرزائی دوستو! تم لوگ بڑے نڈر ہو۔ مرزاقادیانی کی بڑی بے عزتی کرتے ہو۔ جو کہتے ہو کہ ان کے پاس فریضہ حج ادا کرنے کے لئے زادراہ نہ تھا۔ اگرچہ وہ رؤسیأ، امراء میں ہی قدم کیوں نہ رکھتے ہوں۔ اگر تمہیں درکار ہو تو سنو! مرزاقادیانی کو ۱۹۰۶ء تک تین لاکھ روپیہ سے زائد روپیہ آچکا تھا۔ دیکھو ان کی کتاب (حقیقت الوحی ص۲۱۱، خزائن ج۲۲ ص۲۲۱) (بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) میں نے خط لکھے کہ پرانا رشتہ مت توڑو۔ لڑکی کے والدین بیچارے مجبور تھے۔ کرتے کیا آپ کی عمر ۶۰سال تھی اور لڑکی کی عمر اس وقت بقول آپ یعنی مرزاقادیانی صرف آٹھ یا نوسال تھی) خداتعالیٰ سے خوف کرو۔ کسی نے جواب نہ دیا۔ بلکہ میں نے سنا ہے کہ آپ کی بیوی نے جوش میں آکر کہا کہ ہمارا کیا رشتہ ہے۔ (عورت کا حقیقی احساس ایک عورت ہی محسوس کر سکتی ہے۔ اس لئے بیچاری جوش میں آگئی ہوگی) صرف عزت بی بی نام کے لئے فضل احمد کے گھر میں ہے۔ بیشک وہ طلاق دے دے۔ ہم راضی ہیں۔ ہم نہیں جانتے یہ شخص کیسا بلا ہے۔ (اس قدر گستاخی ایک نبی کی شان میں معاذ اﷲ) ہم اپنے بھائی کے خلاف مرضی نہ کریںگے۔ یہ شخص کہیں مرتا بھی نہیں۔ پھر میں نے رجسٹری کراکر آپ کی بیوی صاحب کے نام خط بھیجا۔ مگر کوئی جواب نہ آیا۔ (جواب کیا آتا خاک) اور باربار کہا کہ اس سے ہمارا کیا رشتہ باقی رہ گیا۔ جو چاہے سو کرے۔ ہم اس کے لئے اپنی خویشوں سے اپنے بھائیوں سے جدا نہیں ہوسکتے۔ مرتا مرتا رہ گیا کہیں مرا بھی ہوتا یہ باتیں آپ کی بیوی مجھے پہنچی ہیں۔ بیشک میں ناچیز ہوں۔ ذلیل ہوں، خوار ہوں۔ مگر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں میری عزت ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ (اسی لئے آپ کو خوب ذلیل کیا اور مرتے دم تک منکوحہ آسمانی یعنی محمدی بیگم کا منہ تک نہ دیکھ سکے) اب جب میں ایسا ذلیل ہوں (جو واقعہ ہے) تو میرے بیٹے سے تعلق رکھنے کی کیا حاجت ہے۔ لہٰذا میں نے ان کی خدمت میں خط لکھ دیا ہے کہ اگر آپ اپنے ارادہ سے باز نہ آئیں اور اپنے بھائی کو اس نکاح سے روک نہ دیں۔ پھر جیسا کہ آپ کا خود منشاء ہے۔ میرا بیٹا فضل احمد بھی آپ کی لڑکی اپنے نکاح میں رکھ نہیں سکتا۔بلکہ ایک طرف جب محمدی بیگم (میری منکوحہ آسمانی) کا کسی شخص سے نکاح ہوگا تو دوسری طرف فضل احمد آپ کی لڑکی کو طلاق دے دے گا۔ اگر نہیں دے گا تو میں اسے عاق اور لاوارث کردوںگا اور اگر میرے لئے احمد بیگ سے مطالبہ کروگے اور یہ ارادہ اس کا تبدیل کرادوگے تو میں بدل وجان حاضر ہوں اور فضل احمد کو جواب میرے قبضہ میں ہے۔ ہر طرح سے درست کر کے آپ کی لڑکی کی آبادی کے لئے کوشش کروںگا اور میرا مال ان کا مال ہوگا۔ لہٰذا آپ کو بھی لکھتا ہوں کہ اس وقت کو سنبھالیں اور احمدی بیگ کو پورے زور سے خط لکھیں کہ باز آجائے اور اپنے گھر کے لوگوں کو تاکید کر دیں کہ وہ اپنے بھائی کو لڑائی کر کے روک دیوے۔ ورنہ مجھے خداتعالیٰ کی قسم ہے کہ اب ہمیشہ کے لئے یہ تمام رشتے ناطے توڑ دوںگا۔ اگر فضل احمد میرا فرزند اور وارث بننا چاہتا ہے تو اس حالت میں آپ کی لڑکی کو گھر میں رکھے گا۔ جب آپ کی بیوی کی خوشی ثابت ہو ورنہ جہاں میں رخصت ہوا۔ ایسا ہی سب رشتے ناطے ٹوٹ گئے۔ یہ باتیں خطوط کی معرفت معلوم ہوئی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ کہاں تک درست ہیں۔ واﷲ اعلم! راقم! خاکسار غلام احمد از لدھیانہ اقبال گنج ۲؍مئی ۱۸۹۱ء