احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
خدا کے بندو! محمدی بیگم کے نکاح کی نسبت مرزاقادیانی نے اس کے ورثاء سے ہزارہا روپے اور زمین وغیرہ کے وعدے کئے جو ان کے خطوط ۱؎سے عیاں ہے۔ روپیہ کا لالچ دیا۔ زمین کا وعدہ کیا اور ان تمام امور کی تصدیق مرزاقادیانی کی کتب مثلاً آئینہ کمالات اسلام، حقیقت الوحی، براہین احمدیہ، تبلیغ رسالت، انجام آتھم وغیرہ سے ہوتی ہے۔ نیز آپ نے اپنی کئی کتابوں پر اپنا نام مرزاغلام احمد رئیس قادیان تحریر کیا ہے۔ کیا امیروں اور رئیسوں کی یہی شان ہوا کرتی ہے کہ باوجود ریاست وامارت کے سرٹیفکیٹ رکھنے کے بھی حج کے زادراہ سے محروم ہوں اور ان کے پاس ایک پیسہ بھی نہ ہو؟ کیا آپ نے مرزاقادیانی کے انعامی اشتہارات نہیں دیکھے؟ کوئی تین ہزار کا ہے کوئی پانچ ہزار کا ہے۔ کسی کا کچھ انعام ہے۔ کسی پر کچھ انعام رکھا ہے۔ کیا یہ مفلسوں کی شان ہے۔ ۱؎ مشفق مرزا علی شیر بیگ صاحب باسمہ تعالیٰ! السلام علیکم ورحمتہ اﷲ۔ اﷲتعالیٰ خوب جانتا ہے کہ مجھ کو آپ سے کسی طرح سے فرق نہ تھا اور میں آپ کو ایک غریب طبع اور نیک خیال آدمی اور اسلام پر قائم سمجھتا ہوں۔ لیکن اب جو آپ کو ایک خبر سناتا ہوں۔ آپ کو اس سے رنج گذرے گا۔ مگر میں للّٰہ ان لوگوں سے تعلق چھوڑنا چاہتا ہوں۔ جو مجھے ناچیز بتاتے ہیں اور دین کی پرواہ نہیں رکھتے۔ آپ کو معلوم ہے کہ مرزااحمد بیگ کی لڑکی (محمدی بیگم میری منکوحہ آسمانی) کے بارے میں ان لوگوں کے ساتھ کس قدر عداوت ہورہی ہے۔ اب میں نے سنا ہے کہ عید کی دوسری یا تیسری تاریخ کو اس لڑکی (میری منکوحہ آسمانی) کا نکاح (کسی دوسرے) سے ہونے والا ہے اور آپ کے گھر کے لوگ اس مشورہ میں ساتھ ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ اس نکاح کے شریک میرے سخت دشمن ہیں۔ بلکہ میرے کیا دین اسلام کے سخت دشمن ہیں۔ عیسائیوں کو ہنسانا چاہتے ہیں۔ ہندوؤں کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور اﷲ ورسول کے دین کی کچھ پرواہ نہیں کرتے اور اپنی طرف سے میری نسبت ان لوگوں نے یہ پکاارادہ کرلیا ہے کہ اس کو خوار کیا جائے۔ ذلیل کیا جائے۔ روسیاہ کیا جائے۔ (جو واقعی ہوا) یہ اپنی طرف سے ایک تلوار چلانے لگے ہیں۔ اب مجھ کو بچالینا اﷲ کا کام ہے۔ اگر میں اس کا ہوں گا تو ضرور مجھے بچا لے گا۔ (چونکہ مرزاقادیانی اﷲتعالیٰ کی طرف سے نہیں تھے۔ اس لئے خدا نے انہیں نہیں بچایا اور اچھی طرح سے ذلیل کیا ہے) اگر آپ کے گھر کے لوگ سخت مقابلہ کر کے اپنے بھائی کو سمجھاتے تو کیوں نہ سمجھ سکتا۔ کیا میں چوہڑا یا چمار تھا جو مجھ کو لڑکی دینا عاریاننگ تھی۔ بلکہ وہ تو اب تک ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور اپنے بھائی کے لئے مجھے چھوڑ دیا اور اب اس لڑکی (میری منکوحہ آسمانی) کے لئے سب ایک ہوگئے۔ یوں تو مجھ کسی لڑکی سے کیا غرض (غرض نہ ہوتی تو اﷲ پر افتراء کیوں کرتے کہ خدا نے مجھے الہاماً بتایا ہے کہ اس لڑکی کا نکاح میں نے تمہارے ساتھ آسمان پر پڑھادیا ہے) کہیں جائے مگر یہ تو آزمایا گیا کہ جن کو میں خویش سمجھتا تھا اور جن کی لڑکی کے لئے چاہتا تھا کہ اس کی اولاد ہو اور وہ میری وارث ہو اور وہی میرے خون کے پیاسے وہی میری عزت کے پیاسے ہیں کہ چاہتے ہیں کہ خوار ہو اور روسیاہ ہو۔ (جو واقعی ہوا اور دنیا میں بری طرح ذیل ہوئے) خدا بے نیاز ہے۔ جس کو چاہے روسیاہ کرے (جیسا کہ مجھے کیا) مگر اب تو وہ مجھے (فرقت کی) آگ میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)