احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
کوئی مجھ پہ شمع جلائے کیوں کوئی مجھ پہ آنسو بہائے کیوں کوئی مجھ پہ پھول چڑھائے کیوں کہ میں بیکسوں کا مزار ہوں الغرض اس فرقہ کا وجود جس طرح ہندوستان میں اسلام کی بیخ کنی کے لئے تھا۔ بالکل اسی طرح انگلستان وغیرہ میں اس کا اصل کام اسلام اور اہل اسلام کی جڑ کاٹنے کی کوشش کرنا ہے اور اس کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو سنئے: ’’جھوٹے مرزاقادیانی یعنی مرزا غلام احمد کے فرزند دلبند مرزا محمود قادیانی کا (اخبار الفضل ج۴ ش۸۰ صفحہ اوّل، اپریل ۱۹۱۷ئ) اٹھا کر دیکھئے۔ اس زمانہ میں جب کہ عراق اور بغداد شریف ترکوں کے ہاتھ سے نکلا ہے۔ یہ اخبار الدجل لکھتا ہے۔ ’’ہر مسلمان کو ترکوں سے نفرت کرنی چاہئے۔ یہ محافظ اسلام نہیں بلکہ دشمن اسلام ہیں۔ آسمانی گورنمنٹ کے مطابق یہ کارروائی عمل میں آئی کہ سرکار برطانیہ ہم لوگوں کو جمع کر کے بصرہ کی طرف لے جارہی ہے جو لوگ اس خدمت میں شامل ہوںگے اس پیش گوئی کے موافق ان کو دین دنیا میں کامیاب سمجھو۔‘‘ مرزائی دوستو! اسی کو اشاعت اسلام کہتے ہیں؟ اور سنئے: ۲۷؍فروری ۱۹۲۲ء میں شہزادہ ویلز لاہور تشریف لائے تو مرزائیوں نے ایک ایڈریس ان کی خدمت میں پیش کیا جس میں یہ لکھا تھا کہ: ’’ہم جناب شہزادہ صاحب کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر ہمارے ملک معظم کو ہماری خدمات کی ضرورت ہو تو بلاکسی عوض اور بدلے کے خیال کے ہم لوگ اپنا مال اور اپنی جانیں ان کے احکام کی بجا آوری کے لئے دینے کو تیار ہیں۔‘‘ دوستو! میں حیران ہوں کہ مرزائی وفد نے یہ منافقانہ طرز کیوں اختیار کیا؟ حالانکہ مرزاقادیانی نے انگریزوں کے متعلق جو اپنا اعتقاد لکھا ہے اس عقیدہ سے پہلے یہ بتا دینا مناسب ہے کہ اسلامی اصطلاح میں ’’یاجوج ماجوج‘‘ بڑی بداخلاق ظالم وسفاک قومیں ہیں اور دجال تو ان سب سے بدترین ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے۔ مرزاقادیانی ان تینوں القاب کا مستحق کس قوم کو بتاتے ہیں۔ بغور پڑھئے: ’’ان یاجوج وماجوج ہم النصاریٰ من الروس والاقوام البرطانیہ‘‘ یعنی یاجوج وماجوج برطانیہ وغیرہ کے حق میں۔ اب دجال کی نسبت سنئے کہ مرزاقادیانی کیا فرماتے ہیں۔ ’’بڑی بھاری علامت دجال کی اس کا گدھا ہے۔ جس کے بین الاذنین کا اندازہ ستر باع کیاگیا ہے اور ریل گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طولانی ہوتا ہے