احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
اب ذرا مرزاغلام احمد قادیانی پر نظر ڈالئے کہ کون کہہ رہا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں۔ نام پوچھو تو غلام احمد، عرف سندھی، باپ کا نام معلوم کرو تو غلام مرتضیٰ، ماں کانام دریافت کرو تو چراغ بی بی۔ ذات کے مغل بھی ہیں۔ لطف یہ کہ آپ فرماتے ہیں میں فارسی الاصل ہوں۔ چینی الاصل ہوں اور سندھی بھی ہوں۔ ناظرین! آپ حضرات حیران ہوں گے کہ ایک شخص تین اقوام سے کس طرح وجود میں آیا؟ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ کوئی نرالی بات نہیں۔ یہ تو مرزاقادیانی کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ کیونکہ جو شخص باوجود انسان ہونے کے اپنے آپ کو خدا یقین کر سکتا ہے تو اس کے لئے بیک وقت تین اقوام کافرد خیال کرلینا کون سی حیرت کی بات ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ دید ہ دانستہ نسبت بدلنے والے کی چالیس روز تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ مگر مرزاقادیانی کو اس حدیث کی کیا پرواہ۔ ماشاء اﷲ خدا سے کافی بے تکلفی تھی۔ سب سے بڑا اور زبردست طرفہ یہ کہ خدا کی بیوی ہونے کا شرف حاصل۔ اگر آپ دریافت کرنے کی جرأت کریں کہ جناب سید کیسے بن گئے؟ آپ نے تو اپنی کتابوں میں کئی جگہ لکھا ہے کہ میری ذات مغل ہے تو فوراً جواب موجود ہے کہ بھئی ’’ہمارے خاندان کی بعض دادیاں اور نانیاں سید خاندان کی تھیں۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۱۲، خزائن ج۱۸ ص۲۱۶) منصب پوچھو تو پہلے سیالکوٹ کچہری کے محرر، پھر رئیس قادیان پھر مولوی، پھر مجدد، پھر محدث، پھر نبی بروزی، پھر تشریعی نبی، پھر اﷲ کے بیٹے، پھر اﷲ کے باوا، پھر ایک موقع پر اﷲ کی بیوی، پھر خواب میں خود ہی خدا بن گئے۔ شکل وصورت پر نظر ڈالو تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ دور کی بھی مشابہت نہیں۔ فوٹو جناب کا دیکھیں تو ترچھی نگاہ سے ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے کوئی منکوحہ آسمانی کی تاک میں کھڑا ہے۔ رنگ ملاحظہ کرو تو زرد۔ (ازالہ اوہام ص۴۴، خزائن ج۳ ص۱۲۵) اور افعال یہ ہیں کہ بجائے اسلام پھیلانے کے اسلام کی جڑ کاٹنے کی ہر ممکن کوشش، اقوال یہ ہیں کہ بہتان طرازی دوشنام گوئی ومغالطہ دہی کا ایک سمندر لہریں مار رہا ہے۔ جائے نزول ہے تو قادیان، اولاد ہے تو کئی ایک، ازواج ہیں تو متعدد، دنیا میں رہنے کی مدت دیکھو تو ۶۹سال باقی رہ گئی۔ جائے دفن تو مہربانی فرماکر تھوڑی تکلیف کریں اور دجال کے گدھے (بقول مرزاریل) پر سوار ہوکر قادیان چلے جائیں۔ وہاں مشہور ’’بہشتی مقبرہ‘‘ کے سنگ مزار پر بقلم آہنی بصورت جلی ملے گا ؎