احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
خدا نے بات نہیں کی ہو۔ اس لئے صرف ان کی خاطر اصل الفاظ مرزاقادیانی کے نقل کئے دیتا ہوں۔ ’’ٹھیک بارہ سو نوے ہجری میں خداتعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز (مرزاقادیانی) شرف مکالمہ ومخاطبہ پاچکا تھا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۹۹، خزائن ج۲۲ ص۲۰۸) مرزاقادیانی نے دعویٰ مجددیت کا ۱۳۰۸ھ میں کیا ہے۔ فرق صاف معلوم ہے۔ حضرات! اب مرزاقادیانی کے دعویٰ مسیح موعودکی دلیل میں ایک دلچسپ حدیث سن لیجئے اور وہ بھی مرزاقادیانی کے خود کے الفاظ ہیں۔ میں اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھنا چاہتا۔ مرزاقادیانی اپنے مسیح موعود ہونے کی صداقت کے ثبوت میں ایک حدیث پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’حدیث سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعود اپنے دعویٰ کے بعد چالیس برس تک دنیا میں رہے گا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۲۷، خزائن ج۱۷ ص۳۱۱) مرزائی حضرات کو معلوم ہے کہ مرزاقادیانی نے ۱۸۹۱ء میں مسیح موعود ہونے کا اعلان اور اس دعویٰ کے سلسلے میں سب سے پہلے جو کتاب لکھی وہ ’’فتح اسلام‘‘ تھی اور ۱۸۹۱ء میں چھپی۔ جس کے سرورق سے یہ سن نقل کر رہا ہوں اور دوسری کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ طبع کرایا۔ اس پر بھی ۱۲۰۸ھ مطابق ۱۸۹۱ء لکھا ہے۔ اگر کسی مرزائی کو شک ہوتو کتاب مذکورہ بالا کا سرورق دیکھ لے۔ حدیث کے مطابق مرزاقادیانی کو اپنے دعویٰ کے بعد چالیس سال تک زندہ رہنا چاہئے تھا۔ مگر افسوس صرف سترہ سال تک اس جہان فانی میں رہ کر خاک میں مل گئے اور وہ بھی ہیضہ جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوکر… کیوں؟ اس لئے کہ جھوٹے مسیح تھے۔ مرزائیو! اگر مسلمان نہ بنو تو مت بنو۔ لیکن خدا کے واسطے اتنا تو کہو کہ مرزاغلام احمد قادیانی جھوٹا تھا، دجال تھا، مفتری تھا۔ یہ تو مرزاقادیانی کو مسلّم ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نازل ہونے کی بابت قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ مسیح موعود کا نام عیسیٰ علیہ السلام اور اس کی والدہ کا نام مریم صدیقہ، خاندان سادات، اس کا منصب نبوت سابقہ اور رنگ سرخ سفیدی ملا ہوا، کام کسر صلیب، قتل دجال، جائے نزول دمشق، اس کی اولاد ایک لڑکا، ازواج ایک بیوی۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷) اس کے دنیا میں رہنے کا زمانہ ۴۵سال اور یہاں تک کہ جائے دفن مدینہ منسورہ خود اپنے مقبرے کے اندر فرمادیا۔