احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
زندہ ہیں اور اب تک وفات نہیں پائی۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حیات کے متعلق مرزاقادیانی کے الفاظ یہ ہیں۔ ’’یہ وہی مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا کہ ہم اس بات پر ایمان لاویں کہ وہ آسمان میں زندہ موجود ہے۔ ’’ولم یمت ولیس من المیتین‘‘ وہ مردوں میں سے نہیں۔‘‘ (نور الحق حصہ اوّل ص۵۰، خزائن ج۸ ص۶۸) مرزائی دوستو! دیکھتے ہو اپنے نبی کی بھول بھلیں تم کو کیسے کیسے چکر میں ڈال رکھا ہے۔ تم لوگ تو وفات عیسیٰ علیہ السلام کو لئے پھرتے ہو۔ اب بتاؤ حصرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کیسے ثابت کروگے اور اگر وفات موسیٰ علیہ السلام ثابت بھی کردو (جو درست ہے) تو ادھر مرزاقادیانی ڈبل جھوٹے ثابت ہو رہے ہیں اور وہی مضمون یہاں صادق آتا ہے کہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ قصہ مختصر یہ کہ مرزاقادیانی لگاتار اٹھارہ برس کی طویل مدت تک اس عقیدہ پر ڈٹے رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور دوبارہ اس دنیا میں آسمان سے تشریف لائیںگے اور بقول مرزاقادیانی، جیسے مرزائی ہمیں اس وقت کافر کہہ رہے ہیں۔ خود مرزاقادیانی ڈبل کافر تھے اور مزہ یہ کہ مرزاقادیانی اپنے مرزائی قرآن (حقیقت الوحی ص۱۹۹) پر فرماتے ہیں کہ دعویٰ مجددیت سے دس پندرہ سال پیشتر ہی خداوند تعالیٰ باتیں بھی کیا کرتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ مرزاقادیانی کے خدا کو یہ بتانا یاد نہ رہا ہو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور ان کی حیات کا عقیدہ رکھنا سراسر شرک ہے اور تم اس وقت مشرکوں کی زندگی بسر کر رہے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مرزاقادیانی عرصہ دراز تک یعنی دعویٰ مجددیت کے بعد بھی مشرک رہے ہیں۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کو خود اقرار ہے اور اپنی تصنیف لطیف میں متعد د بار انہوں نے لکھا ہے۔ مسلمانوں میں ایک گروہ حیات مسیح کا قائل تھا۔ اس لئے میں بھی عرصہ دراز تک اس عقیدہ پر جما رہا۔ دوستو! مذہب اسلام کا یہ پہلا (برعم خود) مجدد ہے جو اپنے آپ کو یہ کہہ رہا ہے کہ باوجود مجدد ہونے کے میں عرصہ تک مشرک رہا۔ حالانکہ مجدد کا کام ہے بلکہ فرض اولین ہے کہ دین سے مشرکانہ عقائد کو دور کرے اور صحیح عقائد لوگوں کو بتلائے۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی برعکس ہے اور یہ کیوں؟ (بقول حالی) اس لئے کہ ؎ ہیں مردود استاد وشاگرد دونوں ممکن ہے کہ مرزائی حضرات کو یہ خیال ہو کہ دعویٰ مجددیت سے پہلے مرزاقادیانی سے