احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
مراد باقی رہنے قرآن سے تجوید حروف اور پڑھنا لفظوں کا ہے۔ بغیر سمجھے معنی کے۔ یہ تو تھا آنحضرتﷺ کا فرمان اب ذرا کرشن قادیانی کی بھی سن لیجئے! اپنی مایہ ناز تصنیف میں بڑے شدومد سے بکواس کرتے ہیں کہ: ’’پس اس حکیم وعلیم کا قرآن کریم میں یہ بیان فرمانا کہ ۱۸۵۷ء میں میرا کلام آسمان پر اٹھایا جائے گا۔ یہی معنی رکھتا ہے کہ مسلمان اس پر عمل نہیں کریںگے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۲۵، خزائن ج۳ ص۴۷۹) مرزائیو! خدا نے کہاں فرمایا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں میرا کلام آسمان پر اٹھایا جائے گا۔ ہے کوئی مرزائی جو مرزاقادیانی کو اس جھوٹ کی تہمت سے بچائے۔ میاں امت کے حال پر رحم کھاؤ اور وہ راہیں مت ایجاد کرو جس سے صادق اور کاذب کا رہا سہا فرق بھی اٹھ جائے۔ اگر ایسے کاذب اور مفتری علی اﷲ بھی صادقوں کی فہرست میں آگئے تو پھر اے مرزائیو! تم ہی بتاؤ کہ اس کے بعد امت کے ہاتھ کون سا ذریعہ صادقین کی شناخت کا باقی رہ جائے گا۔ جس سے کہ صادق اور کاذب کا فرق معلوم ہو سکے گا؟ غلام احمد دعویٰ مجددیت ۱۸۸۴ء میں کرتے ہیں اور ۱۸۹۰ء تک مجدد ہی بنے رہتے ہیں اور اس دعویٰ کے بعد آٹھ دس سال تک مرزاقادیانی کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت یہی اعتقاد تھا کہ وہ زندہ موجود ہیں اور دوبارہ آسمان سے اس دنیا میں تشریف لائیںگے۔ چنانچہ اصل الفاظ مرزقادیانی کے یہ ہیں: ’’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہہ‘‘ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ کا دین اسلام کو وعدہ دیاگیا ہے وہ غلبہ مسیح علیہ السلام کے ذریعہ ظہور میں آئے گا اور جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیںگے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق واقطار میں پھیل جائے گا۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم ص۴۹۸، خزائن ج۱ ص۵۹۳) دوستو! یہ عبارت مرزاقادیانی کی ہے اور اس سے تین باتیں صاف صاف ظاہر ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ دوسرے یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آسمان سے اس دنیا میں تشریف لائیںگے۔ تیسرے یہ کہ ان کے آنے سے تمام دنیا میں اسلام پھیل جائے گا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی مرزاقادیانی نے صاف لکھا ہے کہ وہ