احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
ناظرین! کیا یہ کم مرتبہ ہے؟ لیکن ایسے الہاموں سے مرزاقادیانی کو کب تسلی ہونے لگی۔ وہ اپنے خدا سے روٹھ گئے اور کہنے لگے جب تک کہ تو مجھے اپنی فرزندی میں نہ قبول کرے میں نہیں ماننے کا۔ چنانچہ الہام ہوا: ’’انت منی بمنزلۃ ولدی‘‘ یعنی اے مرزا تو میرے بیٹے کی جگہ ہے۔ (حقیقت الوحی ص۸۶، خزائن ج۲۲ ص۸۹) ’’انت من ماء ناوہم من فشل‘‘ یعنی اے میرے بیٹے غلام احمد تو ہمارے پانی (نطفہ) سے ہے اور دوسرے لوگ خشکی سے۔ (اربعین نمبر۳ ص۳۴، خزائن ج۱۷ ص۴۳۳) اب مرزاقادیانی کو روپیہ میں سے آٹھ آنے بھر تسلی ہے۔ لیکن چند روزبعد پھر اپنے خدا سے روٹھ گئے اور لگے منہ بگاڑ کر کہنے۔ ’’میں نے تجھ پر تھوڑا احسان کیا ہے کہ ایک دفعہ میں عورت بن گیا اور تجھ سے ہمبستری بھی ہوئی اور تونے فقط بیٹا بنادیا۔ لہٰذا اب میں جب تک تیرا باپ نہ بنوں دم نہیں لینے کا۔‘‘ (معاذ اﷲ) (دیکھو قادیانی رسالہ نمبر۳۴ موسوم بہ اسلامی قربانی) مرزاقادیانی کے خدا نے بھی سوچا کہ یہ فرعونی صفت اب تو باغی ہورہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ باغی کہیں ’’کن فیکون‘‘ والا حربہ استعمال کر بیٹھے اور میری خدائی ہی کو درہم برہم کر دے۔ اس لئے پہلے تو مرزاقادیانی کے خدا نے مرزاقادیانی کو ڈانٹ پلائی اور طرح طرح کی دھمکیوں سے کام نکالنا چاہا اور آتش وطاعون وغیرہ سے ڈرایا۔ مگر مرزاقادیانی ایسی گیدڑ بھبکیوں سے کب ڈرنے والے تھے۔ آپ نے بھی اپنے خدا کو چیلنج دیا کہ سن: ’’آگ سے ہمیں مت ڈرا۔ آگ تو ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘ یہ نوٹس دیکھ کر مرزاقادیانی کے خدا کا بھی ماتھا ٹھنکا اور فوراً مرزاقادیانی سے صلح کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا اور کہا کہ جو شرط آپ پیش کریں ہمیں منظور ہے۔ مرزاقادیانی نے کہا صلح اس شرط پر ہوسکتی ہے کہ تو نے مجھے اپنے نطفہ سے پیدا کر کے دنیا میں بہت ہی ذلیل کیا۔ اس لئے جب تک تو بھی میرے نطفہ سے پیدا ہونے کا اقرار نہ کرے میں نہیں ماننے کا۔ مثل مشہور ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا۔ اس کے خدا نے یہ شرط قبول کر لی اور جناب ٹیچی ٹیچی صاحب بہادر قادیانی نے صلح نامہ پیش کر دیا۔ جس میں یہ الفاظ تھے۔ ’’انت منی وانا منک‘‘ یعنی اے میرے بیٹے غلام احمد تو مجھ سے ظاہر ہوا اور میں تجھ سے۔ (حقیقت الوحی ص۷۴، خزائن ج۲۲ ص۷۷، دافع البلاء ص۶، خزائن ج۱۸ ص۲۲۷) مطلب صاف ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی اپنے خدا کا باپ اور مرزاقادیانی کا خدا