احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
اس مسئلہ پر اتفاق ہے۔ مگر صد آفرین مرزاقادیانی کی جسارت پر فرماتے ہیں۔ ’’عیسیٰ وغیرہ تمام نبیوں کی وفات ایک لاکھ صحابہ نے مان لی۔‘‘ (اربعین ص۱۲،۱۳، خزائن ج۱۷ ص۳۷۰) یہ اتنا بڑا کذب اور افتراء ہے کہ لاکھ تو کیا دو صحابہ کے نام بھی سند کے ساتھ وہ پیش نہیں کرسکا۔ جو مرزاقادیانی کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر قائل ہوں۔ مرزاقادیانی کے دعاوی کو تسلیم کرلینا بالکل ایسا ہی ہے۔ جیسا پنڈت رامچندر دہلوی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرے اور وفات عیسیٰ کو استدلالاً پیش کرے اور اس کو خاموشی سے سن لیا جائے۔ ہاں ان دونوں میں فرق ہے تو صرف اتنا ہے کہ رامچندر کافر تھا اور مرزاقادیانی منافق۔ قادیانی حضرات کی روشن دماغی کا لطیفہ سنئے۔ مرزاقادیانی کا دعویٰ تو نبوت ورسالت اور الوہیت کا اور بحث کی جائے حیات وممات عیسیٰ علیہ السلام پر۔ اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ مسئلہ حیات مسیح سے مرزاقادیانی کے دعاوی کو کیا تعلق؟ آخر اس کے اختراع کی کون سی ضرورت لاحق ہوئی ہے؟ اس کا جواب چنداں دشوار نہیں اور نہایت ہی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اس مسئلہ کو ان کے دعاوی سے گوزیادہ گہرا تعلق نہیں۔ مگر ان کے مصالح سے بہت ہی گہرا تعلق ہے۔ کم از کم اس قدر تو ضرور اور یقینی مفاد ہے کہ اس غیر متعلق بحث میں الجھ کر کذبات مرزا تک نوبت نہیں پہنچی۔ حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ سب سے پیشتر کذبات مرزا پر گفتگو ہونا چاہئے۔ تاکہ یہ معلوم ہوکہ وہ تخاطب کی بھی حیثیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ اگر اس کسوٹی پر کھوٹے نکل گئے۔ جیسا کہ واقعہ ہے تو ہزار وفات عیسیٰ پر بحث کی جائے۔ مرزاقادیانی کی ذات شریف کو کچھ فائدہ نہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی آنجہانی محدث، مسیح موعود، کرشن یسوع مسیح، محمد، احمد سب کچھ ہوئے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ دعاوی سب انسانی درجہ کے ہیں اور مرزاقادیانی کا مرتبہ ’’میرا تخت سب تختوں سے اوپر بچھایا گیا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۸۹، خزائن ج۲۲ ص۹۲) ان دعاوی سے اونچا اور اعلیٰ ہے۔ چنانچہ خود مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’اے غلام احمد! اب تیرا مرتبہ یہ ہے کہ جس چیز کا توارادہ کرے گااور صرف یہ کہہ دے کہ ہوجا، وہ چیز اسی وقت ہو جاتی ہے۔‘‘ (اخبار بدر ۲۳؍فروری ۱۹۰۵ئ) اور الہام عربی یہ ہیں: ’’انما امرک اذا اردت شیأ ان یقول لہ کن فیکون‘‘ یعنی تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے۔ وہ تیرے ارادہ سے فوراً ہو جاتی ہے۔ (حقیقت الوحی ص۷۵، خزائن ج۲۲ ص۱۰۸)