احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
لئے استعمال کرتے ہیں اور ان کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تم گالیاں دو گے تو ہم بھی گالیوں پر اتر آئیںگے۔ جس سے ارباب بصیرت خوب واقف ہیں۔ جنہوں نے معانی، بلاغت، بدیع کی سیر کی ہے۔ ’’ذلک فضل اﷲ یؤتیہ من یشائ‘‘ پس گالیوں کا بدلہ گالیاں نہیں ہوسکتیں۔ ورنہ پھر تو عام طوفان بدتمیزی مچ جائے گی اور دنیا کے سر سے امن وامان کا سایہ اٹھ جائے گا اور ہر طرف کشت وخون کے باعث ساری زمین کربلا کا خونی ٹکڑا بن جائے گی اور چند دنوں کے بعد آدم آباد زمین میں وحش وطیور درندے سکونت پذیر نظر آئیںگے۔ اس لئے کہ چوری کے بدلے ہمارے حکیم صاحب (قادیانی) کے اجتہاد پر چوری کرنی پڑے گی اور لوٹ کے پاداش میں لوٹنا پڑے گا۔ اگر حکیم صاحب کے مطب کے قرابون اور بوتلوں کو کوئی شریر آکر توڑ جائے تو ان کو بھی اس کے گھر سے بوتلوں اور قرابوں کو نکال کر توڑنے کی تکلیف گوارا کرنا پڑے گی اور بصورت عدم موجودگی چپ چاپ واپس چلا آنا پڑے گا۔ اگر کوئی بے حیاء شریر النفس کسی عفت مآب دیوی کی آبرو ریزی کرے تو اس کلیہ پر نہ معلوم میرے دوست مثلہا کی کون سی صورت تجویز فرما کر عدل گستری فرمائیںگے اور اس کے زخم آبرو ریزی پر کون سے ’’سیئۃ مثلہا‘‘ کا پھاہا رکھیں گے۔ ہم تو یہی کہیںگے ؎ دے دیا اس کے مریضوں کو خدا نے بھی جواب آپ پھولے ہوئے بیٹھے ہیں مسیحا کس پر الحاصل ’’سیئۃ مثلہا‘‘ کا جو معنی حکیم صاحب (قادیانی) نے سمجھا ہے وہ یقینا غلط ہے اور محض حرارت انتقام ناروا کا ایک غلط ابال ہے جو عقل واخلاق، اسلام وقرآن اور سنت ہی کے خلاف نہیں بلکہ دنیا کے سارے متمدن اقوام اور جمیع مذاہب عالم کے نقطۂ عدل وانصاف سے الگ خیال ہے اور اگر بفرض محال حکیم صاحب کا اجتہاد صحیح بھی ہو تو کیا اس کا یہ معنی بھی ہے کہ اگر زید کو بکر گالی دے تو اس کے بدلے میں ایک غیر شخص خالد بکر کو برا بھلا کہے۔ مرزاقادیانی کو برا کہنے والے حضرات کو خود مرزا۱؎قادیانی کا حق تھا کہ جس قدر چاہتے گالیاں ۱؎ اگر یہ کہو کہ آج جب مرزاقادیانی حیات نہیں ہیں پھر کیوں ان کی شان میں لوگ حرارت سے کام لیتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سچ ہے کہ مرزاقادیانی مرگئے۔ مگر جو بیدینی کے کانٹے بوگئے ہیں وہ ہنوز باقی ہیں اور مسلمانوں کے تلووں میں چبھتے ہیں۔ پس تمہیں انصاف کرو، ہمارے پاؤں چھلنی ہو جائیں اور ہم فریاد نہ کریں۔ ہمارے دل دکھائے جائیں اور ہم آہ تک نہ کریں۔ ہم کو، ہمارے بزرگوں کو، صحابہ کرامؓ کو، انبیائے عظام کو برا بتلایا جائے۔ ان کی تحقیر کی جائے اور ہم لب بر مہر خاموشی لگا کر انصاف بھی نہ چاہیں۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)