احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
دیتے اور کوستے جس کو حتی المقدور مرزاقادیانی نے اپنے آخری دم تک ادا کیا۔ ہاں سعاد تمند وارثوں کا فرض استغاثہ ہے۔ (بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) حتیٰ کہ احادیث نبویہ کو اپنے الہام ناکام کے مقابلہ میں ردی سے بھی بدتر بتلایا جاوے اور ہم چپ چاپ ایمان کو خیرباد کہہ کر صم بکم ہوکر سنتے رہیں۔ اگر انصاف کی آنکھیں رکھتے ہو تو دیکھو اور پڑھو اور اپنے ضمیر سے انصاف چاہو۔ قصیدہ اعجازیہ میں مرزاقادیانی سید الشہداء امام حسینؓ جن کو حضورﷺ نے سید شباب اہل الجنۃ فرمایا ہے۔ جو خاندان رسالت کے لئے ایک سراج منیر ہیں۔ ان کی شان میں ایسی بے ادبی ہوتی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور حیرت ہوجاتی ہے کہ ایک مسلمان کے زبان وقلم سے کس طرح ایسے الفاظ ادا ہوسکتے ہیں۔ سنو! شتان ما بینی وبین حسینکم فانی ائید کل آن وانصرواما حسین فاذکروا دشت کربلا الیٰ ہذہ الایام تبکون فانظروا واﷲ لیست فیہ منی زیادۃ وعندی شہادات من اﷲ فانظروا وانی قتیل الحب لکن حسینکم قتیل العدیٰ فالفرق اجلی واظہر ترجمہ:تمہارے حسینؓ اور ہمارے درمیان میں بہت بڑا فرق ہے۔ اس لئے کہ مجھ کو ہر وقت خدا سے تائید ومدد ملتی ہے۔ مگر حسینؓ کی حالت کے لئے میدان کربلا یاد کرو۔ (یعنی ہماری طرح خدا کی تائید ومدد ان پر چونکہ نہیں تھی۔ بھوکے پیاسے دشمنوں نے قتل کر ڈالا) جس کے لئے تم آج تک روتے ہو اور قسم خدا کی حسینؓ میں کوئی بات مجھ سے زیادہ نہیں ہے۔ میرے پاس تو خدا کی گواہیاں ہیں۔ پس تم دیکھو (مزید براں) میں تو محبت کا کشتہ ہوں۔ لیکن تمہارا حسین تو دشمنوں کا کشتہ ہے۔ پس فرق (درمیان ہمارے اور تمہارے حسین کے) کھلا اور ظاہر ہے۔ احادیث کی دھجیاں مرزاقادیانی نے ان لفظوں میں اڑالی ہیں۔ ’’ہل النقل شیٔ بعد ایجاء ربنا فای حدیث بعدہ تنخیرو قد مزق الاخبار کل ممزق فکل بما ہو عندہ یتبشرہ اخذنا من الحی الذی لیس مثلہ وانتم عن الموتیٰ ففکروا رأینا وانتم تذکرون حدیثکم وہل من یقول عند عین تبصر‘‘ اس کا ترجمہ یہ ہوا کہ خدا کی وحی (جو ہم پر آتی ہے) اس کے بعد نقل (حدیث) کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس کے بعد ہم کس حدیث کو مان سکتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ حدیثیں تو ٹکڑے ٹکڑے کر دی گئی ہیں اور ہر شخص اپنی حدیثوں سے خوش ہورہا ہے۔ ہماری وحی تو حی وقیوم لاشریک لہ سے ہے اور تم تو مردوں سے (یعنی رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام یا صحابہ اور رواۃ حدیث سے جو سب کے سب مر گئے ہیں) روایت کرتے ہو اس کے بعد کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم نے تو دیکھا اور تم راویوں کا ذکر کرتے پھرتے ہو۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)