احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
اپنی بوٹیاں آپ نوچ ڈالیں۔ تیرے حرص کا دانت روز تیز ہوتا گیا۔ تیری دنیا طلبی کا چنگل اور بھی نوکدار ہوگیا۔ تیری نفسانیت وانانیت دنیا کو تیری عبرت ناک وجود کا نظارہ ابھی بیش از بیش دیکھنا باقی ہے۔ وغیرہ وغیرہ‘‘ معزز ناظرین! ہم حکیم (خلیل قادیانی) صاحب سے اس کی شکایت کر کے انصاف چاہتے۔ مگر مرزائیت کے بعد فضول ہے۔ کیونکہ: گلہ کیا جو بے دین وملت ہو تسلیم بتونکی محبت کا حاصل یہی ہے ’’جزاء سیئت سیئۃ مثلہا‘‘ تہذیب وشائستگی تو آپ ملاحظہ فرماچکے۔ لگے ہاتھوں اس کی وجہ بھی سن لیجئے۔ کہ ہمارے حکیم صاحب (قادیانی) کو کیا مجبوری لاحق ہوئی جو اس طرح کے فواحش پر اتر آئے اور ’’سب المسلم فسوق‘‘ کو نظر انداز فرماگئے۔ آپ بزیر سرخی ’’جزاء السیئۃ سیئۃ مثلہا‘‘ یہ وجوہ تحریر فرماتے ہیں۔ امر واقعہ کا اظہار دماغی رنگ میں مطلوب ہے۔ ان کی شرارتوں سے تنگ ہوکر پبلک کے فائدہ کے لئے بطور دفع ضرر کے ان کی مدافعت احمدیوں کو کرنی لازم ہوجاتی ہے اور شریروں کی اصلاح نہ کرنی بھی معصیت ہے۔ احمدیوں کا اصل کام تو تبلیع اسلام اور اعلا۱؎ء کلمتہ اﷲ ہے۔ لیکن اگر کوئی خبیث فطرت اور شورۂ پشت حیوان بہ شکل انسان بیوجہ مخل ہوتا ہے اور اپنی درندگی کا اظہار کرتا ہے تو ’’یقتل الخنزیر‘‘ کا فرض بھی ’’قاتل الخنزیر‘‘ کے مریدوں کو زبان وقلم سے دفع ضرر کے لئے ادا کرنا ہی پڑتا ہے۔ حاصل یہ کہ آپ قرآن شریف سے یہ تمسک فرما کر کہ ’’برائی کا بدلہ اسی کے برابر برائی کرنی ہے۔‘‘ یہ اجتہاد فرمایا کہ ’’اگر کوئی تم کو گالی دے تو تم بھی گالی دو۔‘‘ حالانکہ اس کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ برائیوں کا بدلہ برائی ہے۔ کیونکہ گناہ کے بدلے میں جو سزا دی جاتی ہے وہ برائی ہو ہی نہیں سکتی۔ بلکہ وہ عین عدل وانصاف ہے۔ یہ محض مشاکلت لفظی ہے جو فصحاء اور بلغاء حسن کلام کے ۱؎ اﷲ اﷲ یہ اعلاء کلمتہ اﷲ کی شان ہے کہ بات بات پر گالیاں دی جاتی ہیں۔ ’’یریدون ان یحمد وابمالم یفعلوا‘‘ کئے لاکھوں جفائیں پیار میں بھی آپ نے ہم پر خدانخواستہ گر خشمگیں ہوتے تو کیا ہوتا