احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
اپنے منہ میاں مٹھو مسٹر محمد علی جیسے گرم سردآزمودہ سے یہ توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ ’’چار ہائیکورٹوں کے فیصلہ‘‘ کو کوئی شرعی ثبوت سمجھیںگے۔ انگریزی کورٹوں کی حقیقت بس اس قدر ہے کہ ایک شخص مجسٹریٹ یاجج کے سامنے اعتراف کرتا ہے کہ میں چمار ہوں، عدالت اس کو چمار تسلیم کرلیتی ہے۔ ایک آوارہ عورت جاکر کہتی ہے کہ میں عیسائی یا سکھ یا ہندو ہونا چاہتی ہوں یا ہو چکی ہوں۔ عدالت کو اس کے تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر دوسرے روز وہی عورت اسی حاکم کے سامنے جاکر کہے کہ میں آج پھر مسلمان ہوتی ہوں یا ہوچکی ہوں۔ عدالت اس کو بھی تسلیم کر لیتی ہے۔ اس کو انگریزی کتاب ’’آئین وانصاف‘‘ میں مذہبی آزادی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ بنائً علیہ جب فرقہ مرزائیہ عدالتوں میں جاجا کر کہتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں۔ تو مجسٹریٹ اور جج کو (جو غیر مسلم حکومت کے نمائندہ ہیں) کیا پڑی کہ خواہ مخواہ دست اندازی کرتے پھریں۔ لہٰذا اس ’’چار ہائیکورٹوں والے فیصلہ‘‘ کا خلاصہ (بالفاظ دگر) یہ ہواکہ آپ اپنے منہ سے اسلام کے مدعی ہیں۔ جس کے ثبوت میں آپ کوئی شرعی وکیل تاقیام قیامت پیش نہیں کر سکتے۔ مسٹر محمد علی کی دھمکی مجھے رہ رہ کر تعجب آتا ہے کہ جناب مسٹر محمد علی صاحب نے اس ’’فیصلہ‘‘ کو مابہ النزاع میں پیش کیوں کیا۔ یہ گمان تو نہیں ہوسکتا کہ آپ ’’فیصلہ معلومہ‘‘ کی شرعی حیثیت سے ناواقف ہیں۔ جو غیر مسلم حکومت کے کسی حاکم کا مرہون منت ہے۔ یہ مبحث بہت ہی طویل الاذیال ہے۔ جب تک جناب کی طرف سے کوئی صاف بات سامنے نہ آئے اس پر بحث کرنا خارج از وقت ہے۔ اس لئے ہو نہ ہو یہ خیال گذرتا ہے کہ آپ نے فیصلہ مذکورہ کا ذکر جس تحدی اور زور سے کیا ہے۔ عام مسلمانوں کو پچاس الماریوں والی حکومت کی دھمکی دی ہے۔ لیکن جناب کو واضح رہنا چاہئے کہ یہ دھمکی حکومت وقت کے یہاں (جو مذہبی آزادی کی پاسدار واقع ہوئی ہے اور مسلمانوں کے یہاں (جو فطرتاً غیر اﷲ کے سامنے جھکنے کے عادی نہیں۔ پرپشہ جتنی وقعت نہیں رکھتی۔ وھمّوا بما لم ینالوا!