احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
علامہ محمود حنفی قونوی (شرح عقیدہ طحاویہ ص۲۴۸) میں لکھتے ہیں۔ ’’واما الشخص المعین اذا قیل ہل تشہدون انہ من اہل الوعید وانہ کافر فہذا لا نشہد علیہ الابامر تجوزمعہ الشہادۃ فانہ من اعظم البغی ان یشہد علی معین ان اﷲ لا یغفر لہ ولا یرحمہ بل یخلدہ فی النار فان ہذا حکم الکافر بعد الموت ولکن ہذا التوقف فی امر الاٰخرۃ لا یمنعنا ان نعاقبہ فی الدنیا لمنع بدعتہ وان نستبتبہ فان تاب والاقتلناہ ثم اذا کان القول فی نفسہ کفراً قیل انہ کفر والقائل لہ یکفر بشروط وانتفاء مواقع ولا یکون ذلک الا اذ اصار منافقاً زندیقاً فلا یتصور ان یفر احد من اہل القبلۃ المظہرین للاسلام الا من یکون منافقاً زندیقاً‘‘ {کسی معین شخص کی نسبت اگر ہم سے دریافت کیا جائے کہ آیا وہ قیامت میں سزا یاب ہوگا؟ اور آیا وہ کافر ہے؟ تو اس کے متعلق واضح رہے کہ یہ بڑی بے انصافی ہے کہ کسی معین شخص کے متعلق ہم خم ٹھوک کر کہہ دیں کہ خداتعالیٰ اس کو آخرت میں نہیں بخشے گا۔ اس پر رحم نہیں کرے گا۔ بلکہ اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رکھے گا۔ کیونکہ اس قسم کا فیصلہ صرف اس شخص کے حق میں ہے جو کفر پر مرچکا ہو۔ (جیسے فرعون، ابوجہل، مسیلمہ) لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح رہے کہ ہمارا یہ توقف صرف عالم آخرت کے متعلق ہے۔ رہا دنیاوی احتساب یقینا ہم اس کو اشاعت بدعت سے روکنے کے لئے سزادیںگے اور اس سے صاف کہیںگے کہ ان خیالات سے باز آجا۔ اگر مان لے تو فبہا ورنہ قتل کر دیا جائے گا۔} مزید براں یہ ہر دو شقیں بھی اسی وجہ تک ہیں جب تک کوئی عقیدہ کفر صریح کو مستلزم نہ ہو۔ ورنہ ہم ایسے خیالات کو کفر اور ان کے معتقد کو کافر قرار دیںگے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص زندیق منافق ہو جائے۔ بنابریں ہم اہل قبلہ میں سے زندیق منافق کو کافر کہیںگے۔ خواہ معین ہی کیوں نہ ہو۔ تلخیص المبحث جناب مسٹر محمد علی صاحب ایم۔اے لاہوری کے چار ہائیکورٹوں کے مزعومہ فیصلہ کے مقابلہ میں جس عالمگیر اسلامی فیصلہ کو ہم پیش کرنا چاہتے ہیں وہ تیرہ سو سال کی بس طویل الاذیال روداد ہے۔ جس کے سمیٹنے کے لئے عمر نوح چاہئے۔ لیکن ضرورت مقام کے پیش نظر ہم نے فیصلہ مذکور کے جستہ جستہ اقتباسات حوالہ قرطاس کئے ہیں۔ حق پسند طبائع اس سے اپنی پیاس بجھا سکتی ہیں۔