احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
قادیانی چونکہ زیادہ کائیاں واقع ہوا تھا۔ اس لئے اس نے نہایت سوچ بچار کے بعد کہا کہ میں تمام انبیاء کے کمالات کا مظہر ہوں۔ تاآنکہ مصرعہ، صدر سولے نہاں بہ پیرانہم اور تاآنکہ۔ منم مسیح زمان ومنم کلیم خدا منم محمد واحمد کہ مجتبیٰ باشد (تریاق القلوب ص۶، خزائن ج۱۵ ص۱۳۴) بنابریں اس کو اذان واقامت میں اضافے کی ضرورت نہ ہوئی۔ یقین جانئے کہ اس شعر کے پیش نظر ہر قادیانی ’’اشہد ان محمداً رسول اﷲ‘‘ سے محمد عربی شہ لولاک مراد نہیں لیتا۔ بلکہ مرزائے غلام احمد قادیانی مراد لیتا ہے۔ مسیلمہ کا انجام باوجود ان حالات کے صحابہ کرامؓ نے اس کذاب سے جہاد فرض سمجھا اور بیشمار قربانیاں دینے کے بعد حضرت وحشیؓ کے حربہ (خورد نیزہ) اور ایک انصاری کی تلوار سے قتل ہوا۔ حضرت وحشیؓ عموماً کہا کرتے تھے کہ اگر حالت کفر میں میں نے بزرگ ترین ہستی (حضرت سید الشہداء حمزہؓ) کو شہید کیا تھا تو حالت اسلام میں میں نے دنیا کے بدترین شخص اور خبیث ہستی کو بھی اسی حربہ سے قتل کیا۔ امید ہے کہ کفارہ ہو جائے گا۔ ختم نبوت کا انکار ہر دور میں ارتداد ہے مذکورہ بالا حقائق سے بداہۃ ثابت ہوتا ہے کہ صدر اوّل کے منکرین ختم نبوت اس لئے اور صرف اس لئے واجب القتل، مرتد، فریق محارب قرار دئیے گئے کہ وہ حضور ختم المرسلینﷺ کے ساتھ شریک فی النبوۃ ہونے کے مدعی تھے۔ ورنہ وہ عام طور پر احکام اسلامیہ کو تسلیم کرتے اور حسب استطاعت ان پر عمل درآمد رکھتے تھے۔ ختم نبوت کے انکار کی تحریک مختلف ادوار میں مختلف نام بدلتی رہی۔ کبھی اس کو اسود، مسیلمہ،طلیحہ کی قیادت نصیب ہوئی اور آج اس کی زمام قیادت مرزاغلام احمد قادیانی کے ہاتھ میں ہے۔ گو اس وقت صدیقؓ وفاروقؓ وخالدؓ نہیں اور پچاس الماریوں والی حکومت قائم ہے اور متنبی قادیان اس کو ’’ظل اﷲ‘‘ کہہ کر من مانی مرادیں حاصل کر رہا ہے۔ مگر احکام شرعیہ بدل نہیں سکتے۔ آج بھی یہ جماعت شرعاً اسی سلوک کی مستحق ہے جو اس سے دور صحابہ کرامؓمیں کیاگیا۔ ’’فلن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا ولن تجد لسنۃ اﷲ تحویلاً‘‘