احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
سے کہا کہ آپ ان سے کیونکر لڑ سکتے ہیں۔ جب حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ: ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کہنے والے کی جان اور مال ہم سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کے باطن کا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔ ہاں حقوق اسلام کے متعلق اس سے گرفت کی جاسکتی ہے۔ یہ سن کر ابوبکرؓ نے فرمایا تو زکوٰۃ بھی حق مال ہے۔ پس جو شخص صلوٰۃ اور زکوٰۃ کی فرضیت میں فرق کرے گا میں اس سے ضرور جہاد کروںگا۔ بخدائے لایزال! اگر انہوں نے بکری کا ایک رسہ بھی روکا جو وہ حضورﷺ کے عہد میں دیا کرتے تھے تو میں ان سے جہاد کروںگا۔ فاروقؓ فرماتے ہیں کہ بس میں نے سمجھ لیا کہ صدیقؓ کو اس مسئلہ میں شرح صدر حاصل ہوچکا ہے۔ پس ان کی تلقین سے میں بھی حقیقت کو سمجھ گیا۔} نتیجہ اس روایت سے صاف معلوم ہوا کہ اہل قبلہ کو ضروریات دین کا انکار، کفر وارتداد اور اس کے انجام بد یعنی حکم قتل سے بچا نہیں سکتا۔ تکفیر اہل قبلہ کی اصل اس مبحث میں سب سے ضروری بات یہ ہے کہ مسئلہ مذکورہ کے اصلی الفاظ جو سلف سے منقول ہوئے ہیں۔ سامنے رکھے جائیں تاکہ مرتد، زندیق، عاصی کے درمیان مابہ الامتیاز قائم کیا جاسکے۔ شرح تحریر ابن الہمام مصنفہ ابن امیر الحاج ج۳ ص۳۱۸ میں ہے۔ ۱… ’’فی منتقیٰ الحاکم الشہید عن ابراہیم بن رستم عن ابی عصمۃ نوح ابن ابی مریم المروزی قال سالت ابا حنیفۃ من اہل الجماعۃ فقال من فضل ابابکر وعمر واحب علیا وعثمان… الیٰ ان قال ولم یکفر واحداً بذنبٍ ونص ابوحنیفۃ فی الفقہ الاکبر فقال ولا نکفر احداً بذنب من الذنوب وان کانت کبیرۃ اذالم یستحلہا‘‘ {حاکم شہید نے منتقی میں نوح جامع سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام ابوحنیفہ سے اہل سنت وجماعۃ کا مصداق پوچھا تو آپ نے من جملہ اور باتوں کے فرمایا کہ سنی وہ ہے جو کسی گنہگار اہل قبلہ کی تکفیر نہ کرے۔ اس کے علاوہ امام اعظمؒ نے فقہ اکبر میں تصریح کی ہے کہ ہم کسی شخص کی گناہ کی وجہ سے۔ گو گناہ کبیرہ کیوں نہ ہو۔ تکفیر نہیں کرتے۔ جب تک کہ کوئی گناہ کو حلال سمجھ کر نہ کرے۔ ورنہ کافر ہو جائے گا۔} (فقہ اکبر ص۲۷) کتاب الانتقاء مصنفہ حافظ ابن عبدالبر ص۱۶۳ پر حافظ مذکور اپنی سند سے ذکر فرماتے ہیں۔ ’’عن نوح بن ابی مریم قال سالت ابا حنیفۃ من اہل الجماعۃ قال الذی