احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
۔ ایک صاحب دریا میں غوطہ لگائے تہ کی طرف جارہے ہیں۔ لیکن مسٹر محمد علی صاحب کی انجینئری کا فیصلہ ہے وہ ربوہ پر متمکن ہے۔ ’’واٰفات الجہل یضیق عنہا نطاق البیان‘‘ یہی حال یہاں ہے۔ مابہ البحث یہ تھا کہ شرعی حیثیت سے فرقہ مرزائیہ کا کیاحکم ہے۔ جب کہ مسلمان ان کو اور وہ مسلمانوں کو قطعی کافر قرار دیتے ہیں۔ مرزائیوں کے مستندات ان کے خود ساختہ نبی کے فرامین ہیں۔ جو ان کے ہاں قطعی ہیں اور مسلمانوں کے دلائل قرآن کریم، ختم الانبیائﷺ، صحابہ کرام اور علماء عظام کی ناقابل تاویل تصریحات میں جو بہرصورت قطعی ہیں۔ استاذ امام ابواسحاق شیرازی شافعی نے اسی موقع کے لئے فرمایا ہے۔ ’’تکفر من یکفرنا ومن لا فلا (شرح فقہ اکبر از قاری ص۱۴۱)‘‘ {مدعیان اسلام میں سے جو شخص یا جماعت ہماری تکفیر کرے ہم بھی اس کو کافر سمجھیںگے اور جو جماعت یا شخص تکفیر سے باز رہے ہم بھی اس سے یہی معاملہ کریںگے۔} ان حالات میں جناب مسٹر محمد علی صاحب کا چار ہائیکورٹوں سے استناد کرنا وہی ’’لم یبق بجھکڑ‘‘ نہیں تو اور کیا ہے۔ مذکورہ بالا ہرسہ مبنی حسب ذیل ہیں: الف… یہ زمانہ باہمی اختلاف وفساد کا نہیں۔ بلکہ حالات کی تیرہ وتار گھٹائیں اتحاد ویگانگت کی دعوت پورے زور سے دے رہی ہیں۔ جب ہندو، اچھوتوں کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں تو مسلمانوں کے لئے باہمی افتراق کی کسی طرح گنجائش نہیں۔ ۱… مگر حیرت ہے کہ یہ خرد باختہ بزرگ یہی ’’نکتۂ اتحاد‘‘ مرزائیوں کو کیوں تلقین نہیں فرماتے۔ تمام رواداریاں صرف ہمیں پر کیوں ختم کر دی جاتی ہیں۔ پہلے مرزابشیر الدین سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ اپنے باوا کی کتاب افتراق سے وہ تمام ملاحیان نکال دیں جو پانی پی پی کر مسلمانوں کو سنائی گئی ہیں۔ مثلاً حرامزادے، کافر، ملعون، جہنمی، کیا ان اتحادی بزرگوں نے مرزابشیر کی کتاب آئینہ صداقت ص۳۵ کا یہ مکفرانہ فتویٰ بھی پڑھا ہے۔ جس کی زد میں وہ خود بھی آئے ہوئے ہیں۔ ’’کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے۔ خواہ انہوں نے ’’حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘ کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔‘‘ ان تصریحات کے باوجود مرزائیوں سے یارانے گاٹھنا اور مسلمانوں کا ادھر دعوت دینا بے حیا باش ہر چہ خواہی کن