احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
فریقی الرایٔ والحدیث من فروع الا حکام فی ابواب الحلال والحرام فلیس فی مابینہم تکفیر وتضلیل‘‘ {گمراہ اہل ہوا، جیسے معتزلہ، خوارج روافض، نجاریہ، مجسمہ، مشبہ وغیرہ اہل ضلال میں سے ہر ایک دوسرے کی تکفیر کرتا ہے۔ گو فروعی احکام از قبیل حلال وحرام میں اہل سنت کے فقہاء (اہل حدیث اور اہل رائے یعنی فقہ حجاز وفقہ عراق) کا بھی اختلاف ہوا ہے۔ مگر وہاں وہ فرقے ایک دوسرے کی تکفیر وتضلیل نہیں کرتے۔} البتہ تعلیم اسلام کا حصہ اعمال (صلوٰۃ، صوم، زکوٰۃ، حج وغیرہ شرائع واحکام) کتاب الٰہی میں مجمل ہے۔ جس کی تفصیل اسوۂ ختم المرسلینﷺ سے معلوم ہوئی۔ جس طرح یہ حصہ بذات خود متواتر اور قطعی الثبوت ہے۔ اسی طرح اس اجمال کی تفصیل وتفسیر بھی قطعی اور متواتر ہے۔ یہی وہ حصہ ہے جس کے متعلق صحابہ کرامؓ کے استفسارات موجود ہیں اور قرآن حکیم میں یستفتونک سے تعبیر ہوئے ہیں۔ یہی تفصیل وتفسیر ہے جس کو حضور ختم المرسلین نے ’’ومثلہ معہ‘‘ سے تعبیر فرمایا۔ یعنی مجھے قرآن مجید کے ساتھ ایک دوسری چیز بھی عطاء ہوئی جو قطعی اور واجب العمل ہونے میں قرآن حکیم کے ہمپایہ ہے۔ حضور سرور کائناتﷺ کا یہی اسوۂ حسنہ ہے جس کی دوسری تعبیر احادیث صحیحہ سے کی جاتی ہے۔ بنابریں اگر احادیث صحیحہ کا انکار کیا جائے (اور چونکہ مبتدعین ملاحدہ حصہ عقائد کو پہلے رد کر چکے ہیں۔ پھر حصۂ اعمال سے یہ سلوک ہو) تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ کوئی شارع (شارح کتاب مجید) مبعوث ہوا ہی نہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے گا کہ نبوت کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ فقط اتنا کافی ہے کہ کوئی دستاویز (مثلاً) عرش مجید سے لٹکا دی جائے اور مکلفین خود بہ خود پڑھ کر حسب مرضی ومشاء خود اس پر عمل کرتے جائیں۔ ’’امام ابو منصور بغدادی‘‘ نے اپنی کتاب میں ادھر لطیف اشارے کئے ہیں۔ ’’ولیس ہذا موضع التفصیل‘‘ حضرت شیخ الاسلام مولانا شاہ محمد انور قدس سرہ نے حیات اور نزول مسیح کے متعلق دو اہم کتابیں لکھ کر امت محمدیہ پر احسان عظیم کیا ہے۔ اوّل کانام عقیدۃ الاسلام اور دوسری کا نام التصریح فی نزول المسیح ہے۔ من شاء فلیرجع الیہما! ۲… مذکورہ بالا عقیدہ فاسدہ کی اختراع کے بعد مرزاقادیانی کو معاً خیال آیا کہ حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کی قبر بھی کہیں معیّن کر لی جائے۔ تاکہ وفات یقینی ہو۔ پھر ہو بھی کہیں قریب تاکہ عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے مریدوں سے علانیہ کہا جاسکے کہ یہ ہے۔