احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
مسئلۃ اختلف فیہا ہولاء الاربعۃ فالامۃ فیہا مختلفۃ‘‘ چار صحابی ایسے ہیں جنہوں نے تمام ابواب فقہ میں زور بیان دیکھا۔ علی المرتضیٰ، زید بن ثابت (کاتب وحی) عبداﷲ ابن عباس (حبرامت) ابن مسعود۔ یہ ہر چہار حضرات جب کسی فقہی مسئلہ میں متفق ہوں تو مسئلہ مذکور تمام امت مسلمہ کا اجماعی مسئلہ شمار ہوتا ہے۔ (ہاں اگر کوئی مبتدع انحراف کرے تو اس کا اختلاف قابل التفات نہیں) لیکن اگر کسی فقہی مسئلہ میں ان حضرات کا اختلاف رائے ہو تو پھر امت بھی اس مسئلہ میں مختلف ہوا کرتی ہے۔ ’’وکل مسئلۃ انفرد فیہا علیؓ بقول عن سائرالصحابۃ تبعہ فیہ ابن ابی لیلی والشعبی وعبیدۃ السلمانی وکل مسئلۃ انفرد فیہا زید بقول اتبعہ مالک والشافعی فی اکثرہ ویتبعہ خارجۃ بن زید لا محالۃ وکل مسلۃ انفرد فیہا ابن عباس بقول تبعہ فیہا عکرمۃ وطاؤس وسعید ابن جبیر وکل مسئلۃ انفرد فیہا ابن مسعود بقول تبعہ علقمہ والاسود وابوثور (اصول الدین ص۳۱۱)‘‘ اس کے ساتھ یہ بھی واضح رہے۔ جب مسئلہ میں علی مرتضیٰ کا دوسرے صحابہؓ سے اختلاف ہو تو ابن ابی لیلیٰ، شعبی عبیدہ سلمانی، انہیں کے متبع رہتے ہیں اور جہاں زید بن ثابت دوسروں سے منفرد ہوں۔ وہاں امام مالکؒ وشافعی عام طور پر اور خارجہ بن زید (از فقہاء شیعہ) ہمیشہ ان کے موافق رہتے ہیں اور جس مسئلہ میں عبداﷲ ابن عباسؓ کا انفراد ہو وہاں عکرمہ، طاؤس، سعید بن جبیران کے ہم نوارہتے ہیں۔ اگر کسی مسئلہ میں عبداﷲ بن مسعودؓ کا اختلاف ہو تو علقمہ، اسود، ابو ثور ان کے متبع رہتے ہیں۔ ’’والآن یکفی ہذا القدر ولعل اﷲ یحدث بعد ذالک امراً‘‘ نہ بندھے تشنگی شوق کے مضموں غالب گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا دراصل یہ نظام معتزلی ملحد اکبر کی روح ہے۔ جو مرزاقادیانی کے اندر بول رہی ہے۔ نظام نے جو باتفاق اہل سنت کئی وجہ سے کافر ہے۔ صحابہ کے حق میں زبردست گستاخیاں کی ہیں اور روافض وخوارج کی نیابت کا حق ادا کر دیا ہے۔ بغدادیؒ لکھتے ہیں۔ ’’ذکر الجاحظ فی کتاب المعارف وفی کتاب الفتیا انہ عاب اصحاب الحدیث وروایاتہم