احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
اہمنکتہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ جیسے فقیہ وافقہ صحابی کی تنقیص وکسر شان کچھ مرزاقادیانی کے گستاخ قلم ہی کے لئے زیبا ہے۔ ورنہ ان کی زندگی کے دوسرے تمام پہلوؤں سے قطع نظر، فقط ان کے علمی کمالات اور کمالات مذکورہ کے حیرت انگیز ثمرات ونتائج پر مبسوط التصنیف لکھی جاسکتی ہے۔ جیسے ہم کوفہ یونیورسٹی کے سلسلے میں ادھر لطیف اشارہ کر چکے ہیں۔ سردست ہم صرف ایک اہم نکتہ پر اکتفا کرتے ہیں۔ بہ تصریح سلف صالحین حضرت ابن مسعودؓ (صاحب الوساد والنعلین) ان فقہاء صحابہ میں سے تھے جن کو تمام ابواب فقہ میں کمال حاصل تھا۔ یہی راز ہے کہ جب حضرت فاروق اعظمؓ نے علوم اسلامیہ کی نشرواشاعت کا ارادہ فرمایا تو مدینہ یونیورسٹی کی زمام اختیار اپنے ہاتھ میں لی۔ جس نے سالمؒ، نافعؒ، سعیدؒ، وزیریؒ، مالکؒ وشافعیؒ واحمدؒ جیسے یکتائے عالم حضرات پیدا کئے اور کوفہ یونیورسٹی کی تعمیر وآبیاری اپنے دست پروردہ ابن مسعودؓ کے سپرد کی۔ جس نے علوم وفنون کے وہ دریا بہائے جن کی ہوش ربا موجوں کو دیکھ کر ابن خلدون جیسے فلسفی مؤرخ کو اعتراض کرنا پڑا کہ عہد اسلام کے حاملین علوم اکثر عجمی نژاد ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جس کی حقیقت سمجھ لینے کے بعد خودبخود واضح ہوجاتا ہے کہ فقہ حجاز (مالکی، شافعی، حنبلی مذہب) اور فقہ عراق ابوحنیفہؒ ابویوسفؒ، سفیانؒ ثوری وغیرہ حضرات کی آراء کا سرچشمہ ایک اور صرف ایک ہے۔ یعنی حضرت فاروق اعظمؓ کی ذات بابرکات غالباً اسی نکتہ کو ذہن نشین کرانے کے لئے حضرت اامام الہند شاہ ولی اﷲ کو رسالہ ’’مذہب فاروق‘‘ لکھنا پڑا۔ جو ازالۃ الخفاء کا ایک اہم ترین باب ہے۔ یہی وہ فلسفہ الفقہ کا آخری مقام ہے جہاں حذاق امت میں سے امام شعرانیؒ، شاہ ولی اﷲؒ اور مولانا المہاجر محمد عبید اﷲ الحاج جیسے افراد کی رسائی ہوئی ہے اور بس۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی حیرت انگیز شخصیت وعلمیت کوبغدادی الفاظ ذیل سے واضح کرتے ہیں۔ ’’اربعۃ من الصحابۃ تحکم فی جمیع ابواب الفقہ وہم علیؓ وزیدؓ وابن عباسؓ وابن مسعودؓ وھولاء الاربعۃ اجمعوا فی مسئلۃ علی قول فالامۃ فیہا مجتمعۃ علی قولہم غیر مبتدع لا یعتبر خلافہ فی الفقہ وکل