احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
کرتا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ بیس سال تک مانگے کے مضامین سے کتابیں تالیف کرنے والے کو نبی مانا جاتا۔ مگر خیر علے سبیل التنزل یہ کور ذوق اسے مجدد تو مان لیتے۔ مگر ان لوگوں کو بیس سال تک مضمون مانگنے کی قدر بھی ہو تو اور اے وائے ناقدری کہ آج ۱۹؍فروری ۱۹۵۰ء کو اسے مجدد تو کجا یہ لوگ شریف انسان ماننے کے لئے بھی تیار نہیں اور الٹا ’’مضمون چور‘‘ بتلاتے ہیں۔ تنہا صاحب کی آخری بات بھی سن لیجئے۔ شاید کام آجائے۔ ’’اس کے بعد ایک دوسرے خط مورخہ ۱۰؍مئی ۱۸۷۹ء میں تحریر فرماتے ہیں۔ کتاب براہین احمدیہ ڈیڑھ سو جزو ہے۔ جس کی لاگت تخمیناً نوسو چالیس روپیہ ہے اور آپ کی تحریر محققانہ ملحق ہوکر اور بھی زیادہ ضخامت ہوجائے گی۔‘‘ نوسو چوہے کھا کر بھی بلی تو حج کو چلی گئی تھی۔ مگر آپ نے نوسو چالیس کی تعداد بلکہ اس سے کچھ زائد بھی ڈکار گئے اور پھر بھی حج پر نہ جاسکے۔ یہ ہیں ہمارے مرزاغلام احمد قادیانی جن کی سلطان القلمی کی مرزائیوں میں دھوم ہے اور یہ ہے ان کی تصانیف کا تانا بانا۔ سب سے آخر میں مصنف سیر المصنفین نے ان خطوط سے جو نتیجہ نکالا ہے وہ بھی سن لیجئے۔ ص۱۲۲ پر فرماتے ہیں۔ ’’خطوط مندرجہ بالا کے اقتباسات سے یہ امر بخوبی ثابت ہوتا ہے کہ مولوی صاحب نے (یعنی مولوی چراغ علی نے) مرزاقادیانی کو براہین احمدیہ کی تالیف میں بعض مضامین سے مدد دی اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کو حمایت وحفاظت اسلام کا کس قدر خیال تھا۔ یعنی خود تو وہ یہ کام کرتے ہی تھے۔ مگر دوسروں کو بھی اس میں مدد دینے سے دریغ نہ کرتے تھے۔‘‘ اب فرمائیے مرزائیوں کا مجدد یا مسیح موعود یا نبی اس مضمون چور کو ہونا چاہئے جو اپنی متاع محقر کو دوسروں کے فوائد جرائد سے زیب وزینت دیتا رہا ہو یا اس وسیع النظر اور وسیع القلب مولوی کو جو حمایت وحفاظت اسلام میں اس قدر انہماک وصمیمت رکھتا ہے کہ خود بھی لکھتا ہے۔ دوسروں سے بھی لکھواتا ہے۔ بلکہ دوسروں کو خود لکھ لکھ کے دیتا ہے تاکہ وہ اپنے نام سے اسے شائع کر کے خوش ہوں اور شاید اسی طرح کی تشویق وترغیب سے وہ حمایت اسلام پر آمادہ ہو جائیں۔ مرزائی دوستوں سے میری یہ درخواست ہے کہ وہ تعصب وتنگ نظری سے بالا ہوکر اس بات پر غور فرمائیں کہ جس شخص کی علمی بضاعت ودیانت یہ ہو۔ وہ مجدد ومسیح تو بجائے خود ماند کیا