احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
بہت کچھ کر رہے ہیں۔ لیکن تاہم (یہ الہامی زبان ہے) مولوی چراغ علی صاحب کو بھی تکلیف دی جارہی ہے کہ وہ اپنی تحقیقات بھی بھیجیں اور اعتراضات لکھیں۔ تاکہ ان تحقیقات واعتراضات کے ساتھ آپ اپنا عارفانہ بے نقط کلام فصاحت التیام شامل کر کے سرمۂ چشم آریہ تیار کر سکیں۔ آہ ری بناوٹی نبوت تیری بے چارگی؟ اور آہ ثم آہ! ماننے والوں کی بے بصری وکم مائیگی پر کہ ایسے ایسے بقلم خود مضمون نویسوں کو بھی ملہم من اﷲ، مجدد اور سلطان القلم سمجھتے اور مانتے ہیں۔ تنہا صاحب سے کچھ اور بھی سن لیجئے۔ ’’ایک اور خط مورخہ ۱۹؍فروری ۱۸۷۹ء میں تحریر فرماتے ہیں۔ فرقان مجید کے الہامی اور کلام الٰہی ہونے کے ثبوت میں آپ کا مدد کرنا باعث ممنونی ہے۔ نہ موجب ناگواری میں نے بھی اس بارہ میں ایک چھوٹا سا رسالہ تالیف کرنا شروع کیا ہے اور خدا کے فضل سے یقین کرتا ہوں کہ عنقریب چھپ کر شائع ہو جائے گا۔ آپ کی اگر مرضی ہو تو وجوہات صداقت قرآن جو آپ کے دل پر القاء ہوں میرے پاس بھیج دیں۔ تاکہ اسی رسالہ میں حسب موقعہ اندراج پا جائے۔ بہرصورت میں اس دن بہت خوش ہوں گا کہ جب میری نظر آپ کے مضمون پر پڑے گی۔ آپ بمقتضا اس کے کہ ’’الکریم اذا وعد وفیٰ‘‘ مضمون تحریر فرمائیں۔ لیکن یہ کوشش کریں کہ ’’کیف ما اتفق‘‘ مجھ کو اس سے اطلاع ہو جائے۔‘‘ براہین کے مضامین ڈکار لینے کے بعد اب ’’ہل من مزید‘‘ کا نعرہ لگایا ہے اور جب صداقت قرآن کے مضامین کے متعلق ملنے کی امید بندھ جاتی ہے تو آپ بھی چھوٹا سارسالہ ’’تالیف کرنا‘‘ شروع کر دیتے ہیں تاکہ اس میں دوسروں کے ’’القائ‘‘ درج کر کے انہیں اپنا ’’القائ‘‘ ظاہر کیا جاسکے۔ ورنہ اگر ادھر تصنیف وتالیف شروع نہ ہو تو دوسروں کے مضامین حسب موقعہ کیسے اندراج پاجائیںگے اور اس دن سے بڑھ کر اور کون سا خوشی کا دن ہوسکتا ہے جب دوسروں کی کمائی ہتھیانے کا موقعہ میسر آرہا ہو۔ پھر یہ اطلاع بھی ضروری ہے کہ مضمون لکھا جارہا ہے۔ بھیجا جارہا ہے یا نہ؟ تاکہ ’’کیف ما اتفق‘‘ جب اطلاع مل جائے گی تو وقت پر اشتہار بازی کی جاسکے گی۔ اب پنجابیوں کی کور ذوقی ملاحظہ فرمائیے کہ جو شخص ۱۹؍فروری ۱۸۷۹ء سے مضمون مانگ مانگ کر پچاس الماریاں بھر رہا ہے۔ ۱۹؍فروری ۱۸۹۹ء میں بھی نبی تو نبی مجدد ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ حالانکہ انہیں پتہ ہے کہ ہر صدی کے سرے پر نبی نہ سہی ایک مجدد تو آیا