احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم! الحمد ﷲ وکفیٰ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ خصوصاً علے خاتم الانبیاء وعلیٰ آلہ واصحابہ الاصفیائ۰ اما بعد! مرزائی اٹھتے بیٹھے اپنے متنبی کی تصانیف اور علم کلام جدید کا ذکر کیا کرتے ہیں۔ مگر مغلظات (گالیوں) اور اشتہار بازی کے سوا جو کچھ مرزاقادیانی کی کتابوں میں ہے وہ اسرار دردن پر دہ جاننے والوں کے نزدیک مستعار اور دوسروں کی محنت کا نتیجہ ہے۔ جسے اس مضمون چور متنبی نے دوسروں کا نام لئے بغیر اپنا مال ظاہر کیا اور مجددانہ دیانت وامانت کی انتہا یہ کہ کہیں اشارۃً یا کنایتہ بھی دوسروں کی محنت کی داد نہیں دی۔ اس بات کے ثبوت کے لئے کہ مرزاغلام احمد قادیانی اپنی کتابوں میں دوسروں کے مضامین شامل کیا کرتے تھے اور عموماً دوسروں سے مضمون مانگ کر ہی گذارا کرتے تھے۔ اردو نثر کی مشہور تاریخ ’’سیر المصنفین‘‘ جلد دوم مصنفہ مولوی محمد یحییٰ تنہا وکیل، کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ یہ کتاب جامعہ ملیہ پریس سے چھپ کر شائع ہوئی ہے اور اردو ادب کی مشہور کتابوں میں سے ہے۔ اس کے صفحہ ۱۱۹ پر مرزاغلام احمد قادیانی کے خطوط کے ذیلی عنوان کے ساتھ مصنف کتاب، نواب اعظم یار جنگ مولوی چراغ علی صاحب کے حالات میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’اس موقعہ پر یہ واقعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ مولوی صاحب (یعنی اعظم یار جنگ) کے کاغذات میں سے چند خطوط مرزاغلام احمد قادیانی کے بھی ملے جو انہوں نے مولوی صاحب کو لکھے تھے اور اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ (جسے بعد میں الہامی ظاہر کیاگیا۔ ابوالفضل) کی تالیف میں مدد طلب کی تھی۔‘‘ سن لیا آپ نے؟ یہ قادیانی نبوت کی ابتداء ہورہی ہے اور سب سے بڑی معرکۃ الاراء کتاب لکھی جارہی ہے۔ جس پر قادیانی اشتہار بازی اور علم الکلام کا دارومدار ہے۔ کاش! ان دوسرے گمنام حضرات کی روحیں بھی آکر بتلاسکتیں کہ ان میں کس کس کاوش کو یہ ’’جوع المضامین‘‘ کا مریض متنبی ومجدد ڈکار گیا ہے۔ خیر اس سے آگے مصنف کتاب لکھتے ہیں۔ ’’چنانچہ مرزاقادیانی اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ آپ کا افتخار نامہ محبت، آمودعزدرود لایا۔ اگرچہ پہلے سے مجھ کو بہ نیت الزام خصم اجتماع براہین قطعیۂ اثبات نبوت