احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
مذکر کے لئے ہی ہے مؤنث کے لئے شی ہے مگر حضرت مخنث ہیں نہ ہیوں میں شیوں میں بھلا ایسے چوری چھپے کے رستموں کے متعلق جو کچھ بھی ثابت ہو جائے کم ہے۔ اسلامی اصطلاحات کی چوری، قرآن پاک سے الہامات کی چوری، ملاحدۂ وقرامطہ سے اعتقادات کی چوری اور بہشتی مقبرے کے ذریعے عوام کے مال ودولت کی چوری تو خیر مرزاقادیانی کا پدری پیشہ ہے۔ عبدالکریم مباہلہ، عبدالرحمن مصری اور فخر الدین ملتانی کی روایات اگر صحیح ثابت ہو جائیں ’’العہدۃ علیٰ الرواۃ‘‘ تو دلوں کی چوری اور عفتوں پر ڈاکے بھی ان کے اغراض ومقاصد میں شامل ہیں۔ بھلا ایسے سینہ زور چوروں کے لئے مضمون چرالینا کون سا بعید ہے۔ میرے دوست ابوالفضل صاحب کا انکشاف اگرچہ ایک بہت بڑا انکشاف ہے۔ مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ جو لوگ خدا کے کلام کی چوری سے نہیں شرماتے وہ بندوں کے مضامین چرانے سے کیا شرمائیںگے ؎ خدا کی جب نہیں چوری تو پھر بندوں کی کیا چوری جنہیں خدا کے محبوب ختم المرسلین رحمتہ اللعالمینؐ کے نام چراتے ہوئے شرم نہ آئی۔ انہیں مولوی چراغ علی کے مضامین چراتے ہوئے کیا شرم آئے گی؟ اور پھر جو ہیراپھیری (تاویل) کے مسلم الثبوت استاد ہیں۔ کیا ان کے ہاں مولوی چراغ علی کے مضامین ہضم کر لینے کے لئے کوئی بھی تاویلی چورن نہیں ہوگا؟ دوسروں کے مضامین بغیر حوالہ دئیے ڈکار جانا ابوالفضل صاحب اور دنیا کے نزدیک چوری ہی سہی۔ مگر جن کتابوں میں یہ مضامین ہیں وہ تو الہامی ہیں۔ اگر مرزائی کل کلاں کھڑے ہوکر یہ کہہ دیں کہ الہامی سے مراد یہی ہے کہ یہ مضامین مرزاقادیانی پر مولوی چراغ علی کی طرف سے الہام ہوئے تھے تو کیا ابوالفضل صاحب کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ ملتان، ۲۳؍فروری ۱۹۵۰ء صخرۃ الوادی