احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
دروازے کا ’’چور تالا‘‘ بننا چاہتے ہیں تو برابر اس کوشش میں مصروف ہیں کہ اوّل تو ان کی یہ چوری پکڑی نہ جائے اور اگر چوروں پر مور پڑ بھی جائیں اور مسلمانوں کے خون سے رنگین ہونے والے ہاتھوں کو خال کے آئینے میں قبل از وقت دیکھ لیا جائے تو پھر ’’ہیرا پھیری‘‘ کے زور سے یہ ثابت کر دیا جائے کہ جسے خون سمجھا جارہا ہے یہ خون نہیں مہندی ہے اور سرظفر اﷲ کی ’’ذات بابرکات‘‘ تو ’’دزد حنا‘‘ درجہ رکھتی ہے جسے بجائے برا سمجھنے کے محبوب جاننا چاہئے۔ مگر ’’قادیانی چور ہٹیا‘‘ کے خزاف صرافوں کو معلوم نہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں جو گھاؤ لگائے ہیں یہ زخم اتنی جلدی مندمل ہونے والے نہیں ؎ کشتہ ہوں میں اس ناوک دزدیدہ نظر کا جانے کا نہیں چور مرے زخم جگر کا اور پھر جب چھوٹے مرزاقادیانی کا ’’اکھنڈ ہندوستان‘‘ کے متعلق رؤیا پڑھ لیا جائے تو مرزائیوں کے دل کا چور صاف دکھائی دینے لگتا ہے۔ مرزامحمود کی بامعنی خاموشی اور الفضل کی ہیرا پھیری، چوری کے بعد آنکھیں چرانے کے مترادف معلوم ہوتی ہے ؎ بے سبب آنکھیں نہیں مجھ سے چراتا وہ صنمکچھ نہ کچھ میری طرف سے اس کے دل میں چور ہے خیر یہ چھوٹے میاں سبحان اﷲ! کی بات تو خواہ مخواہ درمیان میں سخن گسترانہ طور پر آگئی۔ اصل بات تو بڑے میاں کے متعلق تھی کہ: ’’وہ سدا کے چور بدن اور چور پیٹ تھے۔ مدت تک لوگ انہیں مرد سمجھتے رہے اور حمل تک بھی لوگوں کو دکھائی نہ دیا۔ مگر جب انہوں نے خود انکشاف فرمایا کہ میں حاملہ ہوں اور دردزہ شروع ہے تو پھر یہ بات واضح ہوئی کہ حضرت ’’چور خانہ‘‘ میں کیا کیا کچھ کرتے رہے۔‘‘ لیکن پھر کچھ دنوں بعد جب ’’نعوظ بکلی جاتا رہا‘‘ کی داستان انہوں نے اونچے سروں میں الاپنی شروع کی تو معلوم ہوا کہ آپ مرد ہیں نہ عورت ؎