احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
بسم اﷲ الرحمن الرحیم! پیش لفظ لوگ اب تک مرزاغلام احمد قادیانی کو صرف ’’ہیراپھیری‘‘ (فن تاویل) کا استاد سمجھتے ہیں۔ حالانکہ چوروں اور اچکوں کے ہاں یہ فن اس وقت اختیار کیا جاتا ہے جب چور، چوری چھوڑ دیتا ہے۔ یعنی چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہیں جاتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ مرزاقادیانی جوزمانہ موجودہ میں ہیرا پھیری (تاویل) کے امام مانے جاتے ہیں کچھ مدت تک چور بھی رہے ہوں۔ مرزاقادیانی کے بیٹے کی لکھی ہوئی سوانح عمری پر اعتماد کرتے ہوئے اب تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ اس ہیرا پھیری کے کمال تک پہنچنے کے لئے جو چوری زینہ بنی وہ بچپنے کی کھانڈ کے دھوکے میں نمک کی چوری یا گھر سے گڑ کی چوری ہی تھی۔ مگر اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ آپ خیر سے ’’مضمون چور‘‘ بھی رہے ہیں۔ یوں تو دنیا جانتی ہے کہ آپ ’’ہم شحنۂ وہم دزد‘‘ یعنی بلا کے چور وچتر تھے۔ مسلمانوں سے خطاب فرماتے تو بدذات، جنگلی سور اور کتیا سے درے بات ہی نہ کرتے اور پھر اس قدر ڈھٹائی کے بعد خوش اخلاقی کے چور دروازے سے گذر کر الٹا کوتوال کو ڈانٹ دینا تو آپ کے بائیں ہاتھ کا کرتب تھا۔ رنگین نے شاید آپ ہی کے متعلق کہا ہوگا ؎ ہم چور وچتر سنتے تھے سو آپ کو دیکھا دیں گالیاں اور مجھ پہ ہوئے آپ ہی برہم مولانا ظفر علی خان کی رائے ساری امت مرزائیہ کے متعلق یہی ہے۔ وہ فرماتے ہیں: مسیلمہ کے جانشین گرہ کٹوں سے کم نہیں کتر کے جیب لے گئے پیمبری کے نام سے مگر ان چوروں کی داڑھیوں میں جب سے ہندوستان کی وفاداری کا تنکا اٹکا ہے اور کشمیر میں یہ ہندوستان کے پٹیل زادوں کی ’’چور کھڑکی‘‘ بن کر پاکستان جنت نشان کی آزادی کے