احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
تو حضرت نانوتویؒ نے اس کی نفی فرمائی ہے۔ ہرگز نہیں نہیں آئے گا۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’سو اگر اطلاق اور عموم ہے تب تو نبوت خاتمیت زمانی ظاہر ہے۔ ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت زمانی بدلالت التزامی ضرور ثابت ہے۔‘‘ (تحذیر الناس ص۹) نیز فرماتے ہیں کہ تحذیر کو غور سے دیکھا ہوتا تو اس میں خود موجود ہے کہ لفظ خاتم تینوں معنوں پر بدلالت مطابق دلالت کرتا ہے اور اسی کو اپنا مختار قرار دیا ہے۔ (جواب محذورات ص۸۳) اب مرزائی سیکرٹری بتلائے کہ کیا وہ ختم نبوت زمانی کو بھی تسلیم کرتا ہے۔ جس کی حضرت نانوتویؒ نے تصریح فرمادی ہے۔ ہمارا سوال ہم نے کشف التلبیس میں لکھا تھا کہ تمام مرزائیوں سے ہمارا یہ سوال ہے کہ اگر کوئی شخص ان تمام عقائد کو مانے جو مرزاقادیانی نے یہاں لکھے ہیں۔ لیکن مرزاقادیانی کو نبی اور مسیح موعود نہ مانے تو کیا اس کو مؤمن اور مسلمان سمجھتے ہو؟ اس کے جواب میں مرزائی سیکرٹری لکھتا ہے کہ اس سوال میں جواب کے متعلق گذارش ہے کہ ہاں حضرت مرزاقادیانی کے ارشاد میں جن امور کا ذکر ہے ان کو ماننے والا یقینا مسلمان ہے۔ وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کا اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا جس میں مسیح موعود علیہ السلام کا ماننا بھی ضروری سمجھا گیا ہے۔ الجواب الف… مرزائی سیکرٹری نے جواب میں دیانتداری سے کام نہیں لیا۔ ہم نے کشف التلبیس میں علامہ آلوسی مصری کی تفیسر روح المعانی، امام غزالی اور فتاویٰ عالمگیری کی عبارتیں پیش کی تھیں۔ جن میں ختم نبوت کا مفہوم بیان کر کے اس کے منکر کو کافر قرار دیا گیا۔ ان کا جواب مرزائی سیکرٹری نے بالکل نہیں دیا۔ اسی طرح امت مسلمہ کا جس مسیح کی آمد ثانی پر اجماع ہے وہ حضرت عیسیٰ بن مریم ہیں۔ جو آنحضرتﷺ سے پہلے بحیثیت نبی مبعوث ہو چکے ہیں نہ کہ چراغ بی بی کے فرزند مرزاغلام احمد قادیانی۔ تو کیا اس بارے میں مرزا قادیانی اور ان کی امت کا عقیدہ اجماع امت کے خلاف نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر اس شخص کو کافر قرار دیتے ہیں جو مرزاقادیانی کو نبی نہیں مانتا۔ چنانچہ کشف التلبیس میں بھی ہم نے مرزاقادیانی کی یہ عبارت پیش کی تھی کہ: ’’جو مجھے نہیں پہنچانتا وہ کافر اور مردود اور اس کے اعمال حسنہ نامقبول اور دنیا میں معذب اور آخرت میں ملعون ہوگا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۷۶، خزائن ج۲۲ ص۳۹۰)