احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
نبوت کی خود ہی قلعی کھول دی ہے۔ اس کے بعد بھی کیا اس علمی بحث کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ مرزاقادیانی کس درجہ میں نبی تھے یا نہ؟ ہاں یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ آپ انگریزی نبی ضرور تھے۔ بھلا جو شخص مسلمانوں کے دلوں میں انگریزی حکومت کی اطاعت جمانے کے لئے پچاس الماریوں کی مقدار میں کتابیں لکھے۔ خدا کی اطاعت کے بعد بجائے اطاعت رسولﷺ کے اس کا دین وایمان انگریز کی اطاعت ہو اور جس کی درخواستوں کی زبان ایک نہایت کم ظرف اور مفاد پرست چپراسی کی زبان ہو جو کوئی خودار ملازم بھی اپنے افسر کے سامنے استعمال کرنے میں شرم محسوس کرتا ہو۔ یہ گداگری کا کشکول ہے یا رسالت الٰہیہ کی تبلیغ؟ ایک باضمیر چپراسی بھی اتنی خوشامد لجاجت اور چاپلوسی کسی افسر کی نہیں کرسکتا جو ایک مدعی مسیحیت نے انگریز کو راضی کرنے کے لئے کی ہے۔ مقتدر کفار کے مقابلے میں تو انبیاء کی زبان وہ ہوتی ہے جو حضرت ہود علیہ السلام نے استعمال فرمائی۔ ’’فکیدونی جمیعاً ثم لا تنظرون انی توکلت علی اﷲ ربی وربکم‘‘ {پس تم سب مل کر میرے خلاف تدبیر کر لو۔ پھر مجھ کو مہلت نہ دو۔ میں نے اﷲ پر بھروسہ کیا جو میرا اور تمہارا رب ہے۔} انبیاء معصومین کا مقام تو بہت بلند وبرتر ہے کہ مرزاقادیانی کا ان سے کوئی موازنہ کیا جائے۔ صحابہ کرامؓ کے مجاہدانہ کارنامے قیصر وکسریٰ کے دربار میں ان کے باطل شکن چیلنج مجدد دین کا بڑے بڑے باجبروت سلاطین کے دربار میں اعلان حق سلف صالحین اور علمائے ربانیین کی حق بیانیاں تاریخ اسلام کے صفحات میں نمایاں ہیں۔ لیکن اس کے برعکس قادیانی نبی کا کردار ملاحظہ فرمائیں کہ کاسۂ گدائی ہاتھ میں لئے انگریز جیسے مسلم کش کافرکوچوکھٹ پر کھڑے ہیں۔ ’’بہ بیں تفاوت راہ از کجاست تا بکجا‘‘ ان تحریروں کے باوجود مرزائی سیکرٹری کو یہ کہنے کا حق پہنچتا ہے کہ مرزاقادیانی نے کبھی کوئی جاگیر اور انعام حاصل نہیں کیا۔ بھلا انگریزی نبوت سے زیادہ بھی کوئی بڑا انعام دنیوی اعتبار سے ہوسکتا ہے؟ کیا کوئی جاگیر اور ریاست انگریز کا خودکاشتہ پودا ہونے کے مساوی ہوسکتی ہے؟ ۱۸۵۷ء میں آپ کے والد صاحب نے فرنگی فرمانبرداری اور غلامی کاجو حق ادا کیا اور جس کے صلہ میں ان کو مبلغ دوسوروپے انعام دیاگیا اور دربار گورنری میں کرسی نشین ہونے کا شرف پایا اور سرکاری خصوصی چٹھیات سے ان کو اور سارے خاندان کو سرفراز کیاگیا اور خود مرزاقادیانی نے بھی یہاں تک عرض کردیا کہ: ’’میں اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کہ اس گورنمنٹ محسنہ انگریزی کی خیرخواہی اور ہمدردی میں مجھے زیادتی ہے یا میرے والد مرحوم کو۔ الخ!‘‘