احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ’’مثلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنیٰ بیتاً فاحسنہ واجملہ الا موضع لبنۃٍ من زاویۃ من زاویاہ۰ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون منہ ویقولون ہلاً وضعت ہذہ اللبنۃ قال فانا اللبنۃ وانا خاتم النبیین (صحیح بخاری، مسلم، ترمذی)‘‘ {فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی ہے۔ جس نے ایک گھر بنایا اور اس کو خوب آراستہ پیراستہ کیا۔ مگر اس کے گوشوں میں سے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔ پس لوگ اسے دیکھنے آتے اور خوش ہوتے اور یہ کہتے کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ رکھی گئی۔ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔} اس مثال سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ قصر نبوت میں صرف ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی جو خاتم النبیینﷺ کی تشریف آوری سے پر ہوگئی۔ ظاہر ہے کہ حضور اکرمﷺ سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام قصر نبوت میں شامل ہوچکے تھے۔ اب مرزاقادیانی اگر نبی ہے تو قصر نبوت میں اس کی جگہ کہاں ہے۔ جب کہ نبوت کے محل میں کسی اینٹ کی جگہ خالی نہیں رہی۔ خواہ کسی قسم کی نبوت ہو۔ لامحالہ مرزاقادیانی ہو یا کوئی اور جو بھی نبی کریمﷺ کے بعد پیدا ہوکر دعویٰ نبوت کرے گا وہ قصر نبوت کو گرانے والا ہوگا اور طرفہ یہ کہ مرزاقادیانی نے خود بھی یہی مفہوم تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے: ۱… ’’نبوت کا دعویٰ نہیں محدثیت کا ہے اور محدثیت کے دعویٰ سے دعویٰ نبوت نہیں ہوسکتا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۲۲، خزائن ج۳ ص۳۲۰) ۲… ’’معنی خاتم النبیین۔ ختم کرنے والا نبیوں کا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۱۴، خزائن ج۳ ص۴۳۱) ۳… ’’وما کان لی ان ادعی النبوۃ واخرج من الاسلام والحق بقوم کافرین‘‘ یعنی میرے لئے یہ کب جائز ہے کہ نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے خارج ہوکر کافروں میں شامل ہو جاؤں۔ (حمامۃ البشریٰ ص۸۰، خزائن ج۷ ص۲۹۷) بتلائیے! مرزاقادیانی اگر نبوت کے مدعی ہوئے ہیں تو اپنے اس فتویٰ کی بناء پر کیوں اسلام سے خارج ہوکر کافروں میں شامل نہیں ہوئے؟ یہی حال ان کے ماننے والوں کا سمجھئے۔ مرزائی سوال نمبر۷ مرزائی سیکرٹری ص۶ پر لکھتا ہے کہ: جہاں تک جماعت احمدیہ کے عقیدہ کا تعلق ہے اس