احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
لکھا ہے کہ اگر خدانخواستہ گورنمنٹ انگلیشیہ کی کسی مسلمان طاقت سے ان بن ہو جائے تو مسلمانان ہند اوّل تو آخر وقت تک گورنمنٹ سے یہی التجا کریںگے کہ وہ اس جنگ سے محترز رہے۔ اگر ان کی استدعاء شرف پذیرائی حاصل نہ کرے اور گورنمنٹ کو لڑائی کے بغیر اپنی مصلحتوں کی بناء پر چارہ نہ رہے تو ایسی حالت میں مسلمانوں کو اسی طرح سرکار کی طرف سے جلتی آگ میں کود کر اپنی عقلمندی ثابت کرنی چاہئے۔ جس طرح سرحدی علاقے اور تھائی لینڈ کی لڑائیوں میں مسلمان فوجی سپاہیوں نے اپنے مذہبی اور قومی بھائیوں کے خلاف جنگ کر کے اس بات کا بارہا ثبوت دیا ہے کہ اطاعت اولیٰ الامر کے اصول کے وہ کس درجہ پابند ہیں۔ (زمیندار ۱۲؍نومبر ۱۹۱۱ئ) نیز لکھا ہے کہ ہمیں ہمارا پاک مذہب بادشاہ وقت کی اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ ہم کو سرکار انگلیشیہ کے سایہ عاطفت میں ہر قسم کی دینی ودنیوی برکات حاصل ہیں۔ ہم پر ازروئے مذہب گورنمنٹ کی اطاعت فرض ہے۔ ہم انگریزوں کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کے لئے تیار ہیں۔ زبانی نہیں بلکہ جب وقت آئے گا تو اس پر عمل بھی کر کے دکھائیںگے۔ (زمیندار یکم؍نومبر ۱۹۱۱ئ) اس جگہ یہ حقیقت بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ جہاں تک سکھوں کے مظالم سے نجات دلانے کا تعلق تھا مسیح موعود نے انگریزی حکومت کی تعریف تو کی ہے۔ لیکن جہاں تک ان کے عقائد کا تعلق ہے اس پر آپ نے پوری جرأت اور دلیری کے ساتھ زبردست تنقید فرمائی۔ یہاں تک کہ وفات مسیح علیہ السلام مدلل اعلان فرماکر قصر عیسائیت کی بنیادیں ہلادیں۔ نیز حضرت مسیح موعود قیصرہ ہند اور دیگر تمام ارکان سلطنت کو برملا دعوۃ اسلام دینے میں تمام عالم اسلام میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ (مرزائی ٹریکٹ ص۴) الجواب ۱… مرزاقادیانی کی انگریز پرستی کو جائز ثابت کرنے کے لئے مولانا ظفر علی خان مرحوم کی تحریر کا سہارا لینا ’’ڈوبتے کو تنکے کا سہارا‘‘ لینے کے مترادف ہے۔ کیا مولانا ظفر علی خان کی یہ تحریر کوئی شرعی کسوٹی ہے۔ جس پر مرزاقادیانی کے صدق وکذب کو پرکھا جائے۔ مولانا ظفر علی خان صاحب کا یہ ابتدائی دور کا تصور ہے۔ بعدازاں جنگ بلقان کے بعد جنگ عظیم کے دوران جب ان کو انگریزی حکومت کی عیاریوں اور اسلام دشمن سرگرمیوں کا علم ہوا تو پھر ساری عمر انگریزی اقتدار کے خلاف نبرد آزما رہے اور اس راہ میں بڑی بڑی صعوبتیں برداشت کیں۔ اگر مولانا مرحوم کی بات کو ہی ماننا ہے تو ان کے آخری لائحہ عمل کو حق مان کر مرزائیوں کو اپنے مرزا آنجہانی کی نبوت سے بیزاری کا اعلان کردینا چاہئے۔