احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
چکوال میں بھی انہوں نے لاؤڈ سپیکر پر اشتعال انگیز تقاریر کی تھیں اور اشتہار میں ایک تقریر کاموضوع ’’وفات مسیح‘‘ مقرر کر کے اہل اسلام کے قلوب کو مجروح کیا تھا اور جہلم میں ان کی دیگر شر انگیز کاروائیوں کے علاوہ گورنمنٹ ہائی سکول کے ایک مرزائی ٹیچر فضل داد نے ایک نابالغ لڑکے نعیم احمد متعلم کلاس نہم کو ڈنڈے مار مارکر اس کے بازو کی ہڈی اس بناء پر توڑ دی تھی کہ اس نے بلیک بورڈ پر ’’ختم نبوت زندہ باد‘‘ کے الفاظ لکھے تھے۔ چنانچہ مرزائی مذکور نے اس بات کو تحریری طور پر تسلیم بھی کر لیا تھا کہ نعیم احمد کو اس نے اسی وجہ سے سزا دی ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ باوجود مسلمانوں کے احتجاجات اور قراردادوں کے محکمۂ تعلیم کی طرف سے اس ٹیچر کو بالکل معاف کر دیاگیا ہے۔ بہرحال ایسے مکدر حالات میں ہم نے اس مرزائی ٹریکٹ کا جواب شائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ ہم نمبروار مرزائی سوالات کی عبارت درج کرکے اس کا مدلل جواب دیںگے۔ قارئین پڑھنے والوں کی خدمت میں ہم گذارش کرتے ہیں کہ وہ اس جوابی ٹریکٹ کو بغور پڑھیں۔ انشاء اﷲ مرزائیوں کی تلبیسات کا پردہ چاک نظر آئے گا۔ ’’واﷲ المستعان وعلیہ التکلان‘‘ مرزائی سوال نمبر۱ خطیب صاحب مذکور کے اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ: ’’کسی نبی کا استاد نہیں ہوتا اور نہ نبی کسی سے تعلیم حاصل کرتا ہے۔‘‘ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں کسی جگہ ایسے کسی معیار کا ذکر نہیں۔ بلکہ خود ساختہ معیار ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔ نیز یہ کہ قرآن مجید نے آنحضرتﷺ کی نمایاں غیر معمولی صفت کے طور پر آپ کو امی قرار دیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر واسطۂ استاد خداتعالیٰ سے براہ راست علم حاصل کر کے دنیا کی رہنمائی کرنا حضورﷺ کی امتیازی شان تھی اور اس میں کسی اور کو شریک کرنا آنحضرتﷺ کی توہین اور ہتک ہے۔ اس جگہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ جس شخص نے اپنی زندگی میں ایک دفعہ بھی قرآن مجید یا بخاری شریف پڑھی ہو۔ وہ ایسا لغو اور بے بنیاد اعتراض نہیں کر سکتا۔ کیونکہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تحصیل علم کی خاطر ایک لمبا سفر کرکے اﷲتعالیٰ کے ایک بندے سے تحصیل علم کی درخواست کرنا اور پھر اپنے معلم کے ساتھ شاگردوں کی طرح رہنا اور اس سے بعض باتیں سیکھنا مذکور ہے۔ (الکہف) اسی طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق بخاری شریف میں یہ واضح ذکر موجود ہے کہ آپ نے بنوجرہم سے ادب عربی کی تعلیم حاصل کی۔ (مرزائی ٹریکٹ ص۱،۲)