احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
اس تجویز کو پسند فرماتے ہیں کہ: ’’جب کسی گاؤں یا اس شہر کے کسی محلہ میں طاعون پیدا ہو تو یہ بہترین علاج ہے کہ اس گاؤں یا اس شہر کے محلہ کے لوگ جن کا محلہ طاعون سے آلودہ ہے فی الفور بلا توقف اپنے اپنے مقام کو چھوڑدیں اور باہر جنگل میں کسی ایسی زمین میں جو اس تاثیر سے پاک ہے، رہائش اختیار کریں۔ سو میں دلی یقین سے جانتا ہوں کہ یہ تجویز نہایت عمدہ ہے اور مجھے معلوم ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگوں کو چاہئے کہ بلا توقف اس شہر کو چھوڑ دیں۔ ورنہ خدا سے لڑائی کرنے والے ٹھہریںگے۔‘‘ ارے کذاب کے مریدو! آنحضرتﷺ نے کہاں فرمایا ہے کہ جب کسی شہر میں وبا نازل ہو تو اس شہر کے لوگ بلاتوقف اس شہر کو چھوڑ دیں۔ اگر کوئی مرزائی یہ حدیث دکھائے تو وہ دس روپیہ انعام پائے۔ ورنہ ہم تو وہی کہیںگے جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’سچ بات تو یہ ہے کہ جب انسان جھوٹ بولنا روا رکھ لیتا ہے تو حیا اور خدا کا خوف بھی کم ہو جاتا ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۱۳۵، خزائن ج۲۲ ص۵۷۳) ۶… منشی غلام احمد قادیانی آنجہانی کے مخالف ایک بزرگ مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری تھے۔ انہوں نے ایک کتاب ’’فتح رحمانی‘‘ منشی جی کے رد میں لکھی تھی اور دوسرے بزرگ مولوی اسماعیل صاحب علی گڑھی تھے۔ انہوں نے بھی مرزاقادیانی کے رد میں ایک کتاب ’’اعلان الحق الصریح بتکذیب مثیل المسیح‘‘ لکھی تھی اور اس بزرگ نے تو مرزاقادیانی کی یا اپنی موت کا ذکر تک نہیں کیا۔ اب ان یزیدی صفت لوگوں کے مرشد اعظم کا سفید جھوٹ ملاحظہ ہو۔ (اربعین نمبر۳ ص۹، خزائن ج۱۷ ص۳۹۴) پر لکھتے ہیں کہ: ’’مولوی غلام دستگیر قصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسماعیل علی گڑھی والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا ہے کہ وہ کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور پہلے مرے گا۔ کیونکہ کاذب ہے۔ مگر جب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے تو پھر بہت جلد آپ ہی مر گئے اور اس طرح ان کی موت نے فیصلہ کردیا کہ کاذب کون تھا۔‘‘ مرزائیو! مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری اور مولوی اسماعیل صاحب علی گڑھی والے کی کتاب میں سے مذکورہ بالا الفاظ نکال کر اگر کوئی مرزائی دکھائے تو وہ پانچ روپیہ انعام پائے۔ ورنہ جھوٹے کی نسبت ہم وہی کہیںگے جیسا کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ: ’’جھوٹ بولنا ایک شیطان اور لعنتی کا کام ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۰۹، خزائن ج۲۲ ص۲۱۸)