احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
اور مجھے یہ بھی جماعت بتلائے کہ اگر میں اس طریق کو خلاف تقویٰ طریق کے نام سے موسوم کروں تو میں حق بجانب ہوں یا نہیں۔ کیا خلیفہ کی طرف سے اس قسم کی صریح غلط بیانی کا ارتکاب حیرت میں ڈالنے والا نہیں۔ میرے نزدیک تو ایک غور کرنے والے شخص کے لئے میرے سچا ہونے پر ان کا یہ فعل ہی زبردست دلیل ہے۔ کیونکہ یہ اظہر من الشمس ہے کہ اثر ورسوخ کے ادعاء کے الفاظ زائد کرنے سے بغیر اس کے اور کوئی غرض نہیں ہوسکتی کہ جماعت یہ دیکھ کر کہ ایک شخص خلیفہ کے مقابل اثرورسوخ کا دعویٰ کرنا ہے۔ فوراً بھڑک اٹھے اور نفرت کا اظہار شروع کر دے۔ چنانچہ اشارہ پر ہی اکتفا نہیں کیاگیا۔ بلکہ اس اعلان کے بعد الفضل میں یہ اعلان کر کے کہ عبدالرحمن مصری کا جماعتوں کو کھلا چیلنج ہے۔ اب دیکھیں جماعتیں اس چیلنج کا کیا جواب دیتی ہیں۔ اس غرض کی وضاحت کر دی گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ غیر مستحسن طریق کیوں اختیار کیاگیا اور کیوں جماعت میں منافرت پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سویاد رہے کہ اس کی وجہ صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ یہ سب کارروائی محض اس لئے کی گئی ہے کہ جماعت کی توجہ اس اصل وجہ کی تحقیق سے ہٹ جائے۔ جو میرے بیعت سے علیحدگی کا باعث ہوئی ہے۔ کیونکہ اس بات کو ہر شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کے خلاف دل نفرت کے جذبات سے بھر جائے۔ اس کی بات خواہ کتنی ہی سچی کیوں نہ ہو۔ اثر نہیں رکھتی۔ پس انہوں نے بھی انسانی فطرت کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت کو میرے خلاف مشتعل کر کے احباب کے دلوں میں نفرت کے جذبات پیدا کر دئیے۔ تاکہ جس وقت یہ عاجز ان مبنی برحقیقت نقائص کو بیان کر دے تو جماعت کے دل اسے رد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اگر وہ نقائص سچے نہ ہوتے تو انہیں اس فریب کے راستہ کو اختیار کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہ آتی۔ بلکہ مومنانہ سادگی صاف گوئی اور تقویٰ سے کام لیتے ہوئے مجھے جرأت اور دلیری کے ساتھ یہ جواب دیتے کہ جو نقص تم نے میری طرف منسوب کئے ہیں وہ بالکل غلط ہیں۔ بیشک علانیہ ان کی تحقیق کر لو۔ چاہئے تو یہ تھا کہ فوراً ایک آزاد کمیشن بٹھانے کی رائے کا اظہار کرتے۔ لیکن ایسا کرنے کی بجائے تسلی چاہنے والے کے متعلق جماعت سے اخراج کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ اے صحابہ کرامؓ کے بروز کہلانے والی جماعت ایسے مواقع پر صحابہ کرامؓ کا جو طرز عمل ہوا کرتا تھا وہ آپ لوگوں کے سامنے رکھتا ہوں اور وہ یہ تھا کہ جب کسی مسلمان کو کوئی شکایت پیدا ہوئی اور خلیفہ وقت نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔ تو وہ حضرت نبی کریمﷺ کے صحابہؓ کو توجہ دلاتے تھے اور وہ فوراً خلیفہ وقت کے پاس جاتے اور ان شکایات کو پیش کرتے اور اگر انہیں درست پاتے تو خلیفہ