گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
میں دو تین دن پہلے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچ گیا۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم جنازے پر تشریف لے جا رہے تھے اور چاروں طرف جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موجود تھے۔ فرماتے ہیں کہ میں مجمع کو چیڑتا ہوا آپﷺ کے پاس گیا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قمیض کو اس جگہ سے پکڑا جہاں پر قمیض اور تہہ بند ساتھ ساتھ ہوتے ہیں ۔ وہاں سے پکڑ کر غصے سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا۔ پھر میں نے کہا کہ میرا قرضہ ادا کرو جو تم پر ہے اے محمد! اور چوتھی بات یہ کہی کہ اے ہاشم کی اولاد! تم لوگ حق ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتے ہو۔پہلی چیز قمیض پکڑلی۔ دوسری چیز غصے سے دیکھا۔ تیسری چیز سخت بات کہہ کر ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ چوتھی چیز باپ دادا کا بھی طعنہ دیا۔ یہ چاروں باتیں کوئی چھوٹی نہیں ہیں ، بہت بڑی بات ہے۔زید بن سُعُنَّہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ مجھے غصے کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ اے اللہ کے دشمن! میں یہ کیا سن رہا ہوں کہ تو نے میرے نبی کو یہ کہا؟ اللہ کی قسم! اگر تیرا حق نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نہ ہوتا تو میں تیری گردن اُڑا دیتا۔ دیکھیے! غصے کی حالت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کنٹرول دیکھیے کہ عمل پھر بھی وہ شریعت پر ہی کرتے ہیں ۔ زید بن سُعُنَّہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرے کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرے پر اسی طرح مسکراہٹ اور بشاشت تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہم دونوں تمہارے کسی اور سلوک کے مستحق تھے۔ تمہیں چاہیے تھا کہ تم مجھے کہتے کہ اچھی طرح حق ادا کرو، اور اسے کہتے کہ اچھی طرح تقاضا کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اے عمر!جاؤ، جتنا اس کا قرض ہے اتنا ادا کرو، اور مزید تین صاع وہ ادا کرو جو تم نے اس پر غصہ کیا ہے۔_