گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
جائے گا، ان کی برداشت اتنی ہی بڑھتی چلی جائے گی۔ اب ایسی نشانیوں کا پتا کسی بیان وغیرہ سے تو نہیں لگتا، بلکہ معاملات سے پتا لگتا ہے۔ کوئی معاملہ کسی کے ساتھ کریں تب پتا چلے گا کہ کس میں کتنا حلم ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ کیوں نہ ان دونوں نشانیوں کو چیک کروں ۔ چناں چہ میں اس مقصد سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے قریب قریب رہا، موقعے کی تلاش میں رہا۔ چناں چہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ و سلم باہر نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ ساتھ رہے۔ ایک بدو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور آکر کہنے لگا: اے اللہ کے نبی! میرے قبیلے کے کچھ لوگ ایمان لاچکے ہیں اور وہاں پر قحط آچکا ہے، اگر آپ مجھے کچھ دے دیں ، تاکہ میں جا کر ان کی مدد کرسکوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس ابھی تو کچھ نہیں ہے۔ زید بن سُعُنَّہ فرماتے ہیں کہ میں اس وقت آگے بڑھا اور کہا کہ اے اللہ کے نبی! آپ مجھ سے کچھ پیسے لے لیجیے اور فلاں دن فلاں وقت میں مجھے فلاں درخت کی کچھ کھجوریں واپس کر دیجیے گا۔ ادائیگی میں ابھی کردیتا ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جب یہودی کی بات سنی تو فرمایا کہ بات دراصل یہ ہے کہ میں تم سے قرض تو لے لیتا ہوں ، مگر باغ کی تخصیص نہ کرو کہ فلاں باغ ہی دوں ۔ تم مجھے ابھی پیسے دے دو، میں تمہیں اتنی کھجوریں ادا کردوں گا اور معیّن وقت میں ادا کردوں گا۔زید بن سُعُنَّہ فرماتے ہیں کہ میں تو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھا۔ چناں چہ میں نے کچھ درہم وغیرہ دے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے Deal کرلی، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ پیسے اس دیہاتی صحابی کو دے دیے اور فرمایا کہ یہ پیسے میری طرف سے ان کو دے دینا تاکہ وہ اپنا گزارا کرسکیں ۔راوی زید بن سُعُنَّہ فرماتےہیں کہ ابھی وقت معیّن آنے میں دو یا تین دن باقی تھے۔ _