گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
مطالبے کے محض اپنی رضا و رغبت سے واپس کرے تو یہ جائز ہے۔ اور اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ کسی دوسرے موقع پر اس کے ساتھ احسان کرلے تاکہ قرض واپس لینے والے کے دل میں بھی یہ بات نہ آئے کہ یہ مجھے منافع دے رہا ہے۔ جس طرح سود سے بچنا ہے، اسی طرح سود کے شبہ سے بھی بچنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اگرچہ ایسا معاملہ کیا ہے، لیکن ان کے حسن اخلاق اور نیت کی پختگی آج میں اس درجہ کی نہیں ، اس لیے احتیاط ضروری ہے۔ پہلے ہی سے شرائط طے کرنا مثال کے طور پر کوئی کہتا ہے کہ میں تمہیں دس ہزار دے رہا ہوں ، تم واپس کرتے وقت گیارہ ہزار واپس کرو گے۔ یہ عمل سود کے زمرے میں آتا ہے۔ قرضہ دینے والا زیادتی کی کوئی شرط نہیں لگاسکتا، ایک روپے زیادتی کی بھی شرط لگانا اور اس زیادتی کی اُمید رکھنا قرض دار کے لیے گناہ، حرام اور سود ہے۔ مقروض اپنی طرف سے اس پر احسان کرتے ہوئے تھوڑی سی زیادتی کے ساتھ دیتا ہےتو یہ جائز ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ ۰۰ (الرحمٰن: 60)ترجمہ: ’’اچھائی کا بدلہ اچھائی کے سوا اور کیا ہے‘‘؟ انسان کے یہ معاملات اور نیتیں اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ کون کس نیت سے عمل کر رہا ہے؟حضرت عبداللہ بن عباسi سے روایت ہے کہ ایک انصاری سے نبی کریمﷺ نے چالیس صاع قرض لیا۔ وہ کچھ دنوں بعد کسی ضرورت کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے قرض واپس لینے آیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ابھی تو کچھ نہیں آیا ہے۔ اس پر وہ کچھ کہنا چاہتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اچھی بات کے علاوہ کچھ نہ کہنا، میں بہتر قرضہ ادا کرنے والا ہوں ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے چالیس صاع ادا کیے اور مزید چالیس صاع اپنی طرف سے اس _