گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
جی ہاں ! اس وقت کے بادشاہ بھی تہجد پڑھا کرتے تھے۔ ہماری چاہے جتنی بھی مصروفیات ہوں ، کسی بادشاہ جتنی تو شاید نہیں ہوں گی۔ اس لیے تہجد کا اہتمام کرنا چاہیے۔(۲) ایک اللہ والے گزرے ہیں ان کا نام ہے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمہ اللہ تعالی ۔ جب ان کا انتقال ہوا تو انہوں نے ایک وصیت لکھی تھی کہ میری نمازِ جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار صلاحیتیں ہوں ۔ ان کے جنازہ پر وقت کا بادشاہ، شاہی خاندان، علمائے کرام، مشایخ، اُمراء اور کثیر تعداد میں لوگوں کا مجمع تھا کہ جو اِن سے تعلق رکھتا تھا۔ جیسے ہمارے دور میں بھی کئی علماء کے جنازوں کو ہم نے دیکھا۔ اور جیسا کہ حال ہی میں جامعہ اشرفیہ کے مہتمم کے جنازے پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ تھے۔ اور بھی مختلف جگہوں میں مشاہدہ ہوا کہ علماء کے جنازوں میں مختلف لوگوں کا کثیر مجمع ہوتا ہے۔ جب ان اللہ والے کا بھی انتقال ہوا تھا تو دنیا جمع ہوئی تھی۔ اب جب جنازہ پڑھنے کا وقت آیا، تو ایک آدمی نے آواز لگائی کہ حضرت نے وصیت یہ کی تھی کہ میری نمازِ جنازہ وہی پڑھائے جس میں یہ صفات ہوں ، اس کے علاوہ کوئی نہ پڑھائے۔پہلی بات یہ کہ بالغ ہونے کے بعد سے اس کی تہجد کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔دوسری بات یہ کہ اس نے کسی نامحرم کو نہ دیکھا ہو۔تیسری بات یہ کہ عصر کی سنتیں اس نے کبھی نہ چھوڑی ہوں ۔چوتھی بات یہ کہ وہ تکبیرِ اولیٰ کا پابند ہو۔یہ چار شرائط سن کر اتنی بڑی تعداد میں مشایخ اور سارے مجمع کو یوں لگا جیسے ان کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ ایسی خاموشی جیسے Pin Drop Silencہوتی ہے۔ ان چاروں صفات میں سے ایک اکیلی صفت بھی کسی کو مل جائے تو کہاں سے کہاں آدمی کا مقام پہنچ _