گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
اچھا! دنیا میں کسی انسان کو اللہ تعالیٰ کوئی انعام یا فضل کر دیتے ہیں ، چاہے وہ دنیا کا فضل ہو یا دین کا، تو ساتھ میں حاسدین بھی پیدا ہوجاتے ہیں ۔ یہ پکی بات ہے کہ کسی کو کچھ مل جائے تو اس سے حسد کرنےوالا ضرور ہوگا۔ لیکن ہمارے اکابرین کی نظریں بڑی پیاری تھیں ۔ ان کو پتا لگتا کہ ہمارے ساتھ کوئی حسد کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے کہ اے اللہ! تُونے ایسی نعمت عطا کی تیرا شکر ہے کہ کوئی دوسرا ہم سے حسد کرتا ہے۔ اسے کہتے ہیں Positive Thinking کہ حاسد کے بارے میں بدگمانی نہ کرنا۔(۴) ایک مرتبہ ایک حاسد نے بہت بڑی رقم امام صاحب رحمہ اللہ تعالی کے پاس رکھوائی اور اس پر اس نے سرکاری مہر لگا دی۔ خاص طریقے کے مطابق مہر لگا کر بہت بڑی اماؤنٹ امام صاحب کے حوالے کر دی۔ پھر جب اس نے اندازہ لگایا کہ امام صاحب کی لاکھوں کے حساب سے چیزیں Import اور Export ہو رہی ہیں ، اس کے علاوہ وہ لاکھوں کی تعداد میں دراہم علماء اور مشائخ کو دے رہے ہیں ۔ یعنی مدرسہ میں بچوں کو پڑھاتے بھی ہیں ، اور ان کو وظیفے بھی دے رہے ہیں ، لوگوں کے گھروں کی کفالت کر رہے ہیں ۔ اب اس حاسد نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ امانت دیے ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے اور کافی بڑی اماؤنٹ امام صاحب کو دی ہوئی ہے اور ان کا بہترین کاروبار چل رہا ہے ہے۔ خوب ریل پیل نظر آرہی ہے تو یقیناً انہوں نے اس تھیلی کو بھی استعمال کیا ہوگا جس پر سرکاری مہر لگی ہوئی تھی، ورنہ اتنے پیسے امام صاحب کے پاس کہاں سے آسکتے ہیں ؟ اس نے قاضی کی عدالت میں جا کر مقدمہ دائر کر دیا کہ امام صاحب نے میری اس تھیلی کو کھول لیا ہے جس پر سرکاری مہر تھی۔ وہ امام صاحب کے پاس نہیں گیا، سیدھا قاضی کے پاس ہی مقدمہ لے کر گیا تھا۔ قاضی نے جب امام صاحب کو بلایا تو امام صاحب نے اپنے خزانے میں سے وہ تھیلی لاکر پیش کر دی۔ لوگوں نے اور حاسد نے ان کے _