گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
دوکان بند کر دی؟ خیر تو ہے؟ وہ کہنے لگے کہ ہاں ! آج بادل زیادہ ہیں ، اور میری کپڑے کی دوکان ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اندھیرے کی وجہ سے کوئی گاہک آئے اور ہلکی چیز کو قیمتی سمجھ کر لے جائے، اس لیے میں نے دوکان ہی بند کر دی کہ کسی کو دھوکہ نہ لگ جائے۔ سبحان اللہ! یہ لوگ پیسوں کو اپنے آپ سے دور رکھتے تھے، مگر وہ ان کو چمٹ کر آکے لگتا تھا۔ ایک مرتبہ امام صاحب رحمہ اللہ تعالی دوکان پر تھے۔ کپڑوں کا ایک عیب والا تھان تھا۔ جو اُن کا کام کاج کرنے والا ساتھی تھا، اس سے کہا کہ دیکھو! اس تھان میں عیب ہے، اس کو تم نے بغیر عیب بتائے نہیں دینا۔ اس ساتھی نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ کچھ دنوں بعد امام صاحب نے اس ساتھی سے اس عیب والے تھان کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ وہ تو بِک گیا، آج ہی اس کو بیچا ہے۔ ارے بھائی! عیب بتایا تھا؟ اس نے کہا کہ نہیں جی، میں تو بھول گیا۔ اب امام صاحب رحمہ اللہ تعالی بڑے پریشان ہوئے کہ اب کیا کیا جائے؟ امام صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اس دن کی ساری Sale اور بِکری اللہ کی راہ میں دے دی۔ یعنی صدقہ کردی کہ میں اس مال کو اپنے مال میں شامل نہیں کرسکتا۔سفیان بن زیاد رحمہ اللہ تعالی نے فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی احتیاط اور تقویٰ کے بلند مقام پر فائز تھے، اور اس وجہ سے ان کی دوکان پورے کوفہ میں مشہور تھی۔ چناں چہ مدینہ طیبہ سے ایک آدمی کوفہ آیا۔ اسے کچھ مختلف قسم کی چیزیں اور کپڑے خریدنے تھے۔ اس نے لوگوں سے مشورہ کیا کہ کپڑے کہاں سے بہتر ملتے ہیں ؟ لوگوں نے پوچھا کہ تمہیں کس قسم کے کپڑے چاہییں ؟ اس نے کہا کہ مجھے اعلیٰ اور بَڑھیا قسم کا کپڑا چاہیے۔ لوگوں نے بتایا کہ فلاں بازار میں فلاں فقیہ کی دوکان ہے، وہاں تمہیں تمہارے معیار کا کپڑا مل جائے گا۔ لیکن اس بات کا خیال رکھنا کہ اس دوکان میں اپنا ایک دام رکھنا، بھاؤ تاؤ نہ کرنا، کیوں کہ وہاں سودا بھی کھڑا ہے اور ریٹ بھی کھڑا ہے۔ تم اطمینان _