گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
ذریعے ہی لے سکتے ہو۔یہاں سوچنے کی بات ہے کہ اللہ کی نافرمانی کے باوجود بھی آج ہمارے پاس کروڑوں ہیں ۔ اگر ہم نے فرماں برداری کی ہوتی تو شاید اربوں ہوتے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کا رزق اللہ تعالیٰ کو راضی کرکے لینا ہے۔ ایسے بھی اعمال ہیں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ رزق بڑھا دیتے ہیں ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا ایک واقعہ ہے۔ ایک آدمی تھا جس نے زندگی بھر پریشانی میں گزاری۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر جا رہے تھے تو وہ بندہ کہنے لگا کہ اللہ سے اگر بات چیت ہو تو اللہ سےکہیے گا کہ جو کچھ میرے مقدر میں ہے وہ آج ہی مل جائے۔ زندگی گزر گئی فاقے گزارتے ہوئے۔ ایک مرتبہ تو پیٹ بھر کر کھالوں ۔ یہی بات کی، یا اسی طرح کی کوئی بات کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس کو اس کے مقدر کا مل گیا اور بات ختم ہوگئی۔کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ وہاں لنگر چل رہے ہیں ، بڑا سا گھر ہے اور لوگ موجود ہیں جو کھانا کھا رہے ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تحقیق کی کہ یہ کس کا گھر ہے؟ اور یہ بندہ کون ہے؟ پتا لگا کہ یہ وہی فقیر ہے جس نے اپنے مقدر کا سارا مانگ لیا تھا، صرف اتنا سا آیا تھا جتنا چند دنوں کے لیے ہوجانا تھا، ایک آدھ بکری اور گندم کی بوری وغیرہ۔ لیکن آج تو اس کے پاس اتنا مال ہے، لنگر لگا ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اے اللہ! یہ کیا معاملہ ہے؟ اللہ پاک نے فرمایا کہ اے موسیٰ! اس نے تو میرے ساتھ تجارت کی۔ اس کے گھر پر سائل آیا تو اس نے اس سائل کو کھانا کھلا دیا، اور میرا ایک کے بدلے میں دس کا وعدہ ہے۔کوئی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک نیکی لے کر حاضر ہوگا تو اس پر اللہ ربّ العزّت اس کو دس دیں گے۔ (سورہ اَنعام: آیت 160) معلوم ہوا کہ کچھ اَعمال ایسے ہیں جس سے اللہ ربّ العزّت رزق کو بڑھا دیتے ہیں ، ورنہ عام طور پر جو رزق لکھ دیا گیا ہے اتنا ہی ملے _