گلدستہ سنت جلد نمبر 4 |
صلاحی ب |
|
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی میں روایت ہے حضورﷺ نے ایک صحابی سے ارشاد فرمایا کہ پہلے اپنے سے خرچ شروع کرو، جو بچ جائے تو گھر والوں پر خرچ کرو، اب بھی کچھ بچ جائے تو رشتے داروں پر خرچ کرو، اس کے بعد بھی بچ جائے تو اپنے آگے پیچھے، دائیں بائیں والے پڑوسیوں پر خرچ کرو۔ (صحیحمسلم: رقم 997)اب یہاں سے کیا معلوم ہوا کہ ہر آدمی کی اپنی گنجائش ہے۔ ہر آدمی اپنی استطاعت کے اعتبار سے اس مسئلے کو سمجھ لے کہ سب سے پہلے تو اپنی ذات کے اخراجات پورے کرے، کھانے پینے کی ضرورت، کپڑے کی ضرورت۔ پھر بیوی بچوں کے اخراجات پورے کرے، پھر قریبی لوگوں کے جو ایک چھت کے نیچے رہنے والے ہیں ، والدین، بھائی بہن وغیرہ۔ پھر بھی گنجائش ہے تو اپنے اردگرد پڑوسیوں کو دیکھا جائے کہ جو ان میں سے ضرورت مند ہیں ، ان کا خیال رکھے۔ بہت سارے حقوق ہماری طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ بس اپنا اپنا کرتے رہو اور دوسرے کی خبرگیری تک نہ کرو۔ اگر آپ کے پاس پیسہ ہے آپ نے اپنا خرچ پورا کیا، بیوی بچوں کا پورا کیا، والدین کا پورا کیا، بہن بھائیوں کا پورا کیا۔ بڑی سعادت مل گئی۔صلہ رحمی ہوگئی، حسنِ سلوک ہوگیا۔ اگر اور کثرت سے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے تو اب کیا کرے؟ اب اپنے رشتے داروں میں دیکھا جائے۔ خالہ، پھوپھی، چچا کوئی اس طرح رشتے دار نکل سکتا ہے، سامنے آسکتا ہے جس کے حالات مخدوش ہوں ۔ اب انسان انہیں تلاش کرکے اُن کو بھی دے۔ اس کے بعد بھی گنجائش ہو تو کیا وہ اپنا ہوگیا؟ نہیں ، پھر بھی اپنا نہیں ہوا۔ اب فرمایا کہ اپنے پڑوسیوں کو تلاش کرو، اِردگرد دیکھو۔ کیا اس کے بعد چھٹی ہوگئی؟ نہیں ، اس کے بعد فرمایا:_