احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق قرآن کا حوالہ آپ نے دیا ہے۔ قرآن میں ان کی پیشین گوئی کا ٹل جانا دکھادیجئے۔ اس وقت عجب حالت تھی۔ مولوی عبدالماجد قادیانی سے قرآن کی آیت تک نہیں پڑھی گئی۔ حاضرین سے پوچھتے تھے کہ تذکرہ یونس کی آیت کسی کو یاد ہو تو بتلادے۔ جناب مولانا محمد عبدالشکور نے یہ آیت پڑھی۔ ’’وذا النون اذ ذہب مغاضباً‘‘ تو مولوی عبدالماجد قادیانی فرماتے ہیں کہ ذوالنون کے تذکرہ کی نہیں۔ حضرت یونس کے تذکرہ کی آیت میں چاہتا ہوں۔ جناب مولانا نے فرمایا کہ ذوالنون حضرت یونس علیہ السلام ہی کا لقب ہے۔ غرض قرآن مجید میں نہ دکھا سکے اور ان کی اس دلیری کا کہ قرآن کا غلط حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کچھ باک نہ کیا۔ تمام جلسہ نے اس کا اعتراف کیا۔ ۴… اس کے بعد مولوی عبدالماجد قادیانی نے کھڑے ہوکر ایک گھنٹہ بارہ منٹ تقریر کی۔ تقریر کیا تھی۔ دفع الوقتی تھی۔ مگر بدحواسی کے ساتھ۔ ۵… اس کے بعد جناب مولانا محمد عبدالشکور صاحب نے تیس منٹ تقریر کی۔ یہ وہی تقریر تھی جس نے مولوی عبداماجدقادیانی سے مکابرہ کی طاقت بھی سلب کر لی اور انہوں نے صاف الفاظ میں بے ساختہ کہہ دیا کہ میں مناظرہ کے لئے تیار نہ تھا۔ میری تو یہ حالت ہوئی کہ: ’’طفل بمکتب نمیرود ولے برندش‘‘ جناب مولوی محمد عبدالشکور نے اپنی تقریر کا اثر لوگوں پر ڈال دیا۔ میں پہلے ہی جانتا تھا کہ میری تقریر کا اثر کسی پر نہ پڑے گا۔ اب میں مناظرہ نہ کروںگا۔ قادیان سے عالم بلا کر تاریخ مقرر کر کے مناظرہ کروںگا۔ اسی گفتگو پر جلسہ برخواست ہوا۔ صاحبو! سمجھو کہ مولوی عبدالماجد قادیانی کو حق پرستی سے کچھ بھی لگاؤ ہوتا تو ضرور اس وقت وہ توبہ کر لیتے۔ مگر یہ بڑے لوگوں کا کام ہے۔ ’’واﷲ یہدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم‘‘ (خدا جسے چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے) خدا کی حجت پورا کرنے کے لئے دوسرے روز مولوی عبدالماجد قادیانی کو یہ پیام بھی بھیجا گیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے متعلق تو کافی بحث ہوچکی ہے۔ اب حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات وممات پر بحث کر لیجئے۔ اگرچہ اس بحث سے مرزاقادیانی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات مان بھی لی جائے تو اس سے مرزاقادیانی کا دعویٰ ثابت نہیں ہوسکتا۔ نہ وہ ان کو مل سکتا ہے ؎ کسے نہ آید بزیر سایہ بوم ورہما از جہاں شود معدوم