احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
پورا موقع دینا ہے۔ وہ علانیہ کہیں گے کہ دیکھو ان کا خدا ایسے بدچلن لوگوں کو اپنا رسول بناکر بھیجتا ہے۔ اس قسم کی باتیں مرزاقادیانی کی بہت ہیں۔ جو فیصلہ آسمانی وغیرہ میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ باتیں کامل یقین دلاتی ہیں کہ دراصل مرزاقادیانی کاکوئی مذہب نہ تھا اور درپردہ دہریوں کے مؤید تھے۔ مگر مسلمانوں کو فریب دینے کے لئے بہت کچھ اس کے خلاف اپنا عقیدہ ظاہر کیا ہے اور اپنے اقوال سے انکار کر کے علمائے دین کو مفتری کہا ہے۔ چنانچہ اوپر گذرا۔ اسی طرح حضرت سرور انبیاء علیہ الصلوٰۃ والثناء کی بہت تعریف کی ہے اور کہیں توہین کی ہے۔ اس کے بعد مرزاقادیانی اپنی گالیاں دینے کی وجہ سے (ضمیمہ انجام آتھم ص۸، خزائن ج۱۱ ص۲۹۲) میں بیان کرتے ہیں کہ: ’’پادریوں نے ناحق ہمارے نبیﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا کچھ تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں۔‘‘ یہ طرز بیان بھی اس کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح کی نسبت جو بیہودہ بیان اور شرمناک حالات بیان کئے ہیں۔ وہ حضرت مسیح کا واقعی حال ہے۔ مگر اس کا بیان واظہار اس وجہ سے ہوا کہ پادری نے ہمارے پیغمبر برحق کو برا کہا۔ اس کا جواب اوپر دیا گیا اور دوسرا جواب یہ ہے۔ وہ تو کافر ہیں۔ حضرت سرور انبیاء علیہ السلام کو نہیں مانتے۔ اس لئے انہوں نے گالیاں دے کر اسفل السافلین میں اپنی جگہ بنائی۔ مگر ہم تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا سچا رسول مانتے ہیں۔ ہم انہیں گالیاں کیونکر دے سکتے ہیں۔ اسلام تو ہمیں یہ تعلیم کرتا ہے کہ جو انہیں برا کہے۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔ انبیاء علیہم السلام کو گالیاں دینا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ یہ صریح چالبازی ہے کہ ہمارے پیغمبر علیہ السلام کو گالیاں دلوائیں اور پھر دوسرے پیغمبر کے گالیاں دینے کا حیلہ نکالیں۔ اس کے سوا ایک فریب اور ملاحظہ کیجئے۔ جب انہیں خیال ہوا کہ فہمیدہ مسلمان یہ کہیںگے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہم پیغمبر مانتے ہیں۔ ان کی تعریف قرآن مجید میں بہت آئی ہے۔ انہیں مرزاقادیانی گالی دیتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے۔ اس کا جواب (ضمیمہ انجام آتھم ص۹ حاشیہ، خزائن ج۱۱ ص۲۹۳) میں اس طرح دیتے ہیں۔ ’’مسلمانوں کو واضح رہے کہ خدائے تعالیٰ نے یسوع کی قرآن شریف میں کچھ خبر نہیں دی کہ وہ کون تھا اور پادری اس بات کے قائل ہیں کہ یسوع وہ شخص تھا۔ جس نے خدائی کا دعویٰ کیا۔‘‘ یعنی ہم نے یسوع کو گالیاں دی ہیں۔ وہ پیغمبر نہیںتھے۔ ان کا ذکر قرآن شریف میں نہیں ہے۔ مگر یہاں تو وہ مثال صادق آگئی کہ دروغگو را حافظہ نباشد! کیونکہ یہاں تو لکھتے ہیں کہ یسوع