احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
پس جس طرح ظلمت شب کی تاریکی انوار صبح کی سپیدی کے آگے کافور ہو جاتی ہے اور مغرور کرمک شب تاب کی جھوٹی روشنی آفتاب کی درخشندگی کے آگے مٹ جاتی ہے اور شپر ضلالت آفتاب ہدایت سے اندھے ہو جاتے ہیں اور اولیاء الشیطان کی جماعت اولیاء اﷲ کے اس گروہ کے آگے جن کے لئے خدائی وعدہ ’’انّ اولیاء اﷲ ہم المفلحون‘‘ ہو چکا ہے۔ ’’ہم الخٰسرون‘‘ کے مصداق ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح دنیا نے دیکھ لیا کہ آفتاب ہدایت رحمانی کے آگے چراغ ضلالت مرزائیت ماند پڑ گئی اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ آفتاب کے ہوتے ہوئے چراغ کی طرف دوڑنا فعل عبث ہے۔ کیونکہ بذریعہ فیصلۂ آسمانی، شہادت آسمانی وغیرہ وغیرہ نہایت روشن طریق پر یہ ظاہر کر دیا گیا تھا کہ ایک تونفس پیشین گوئی کو صداقت کے لئے معیار ٹھہرانا غلط ہے۔ کیونکہ رمل اور جفر کے جاننے والے بھی دن رات پیشین گوئیاں کرتے ہیں۔ جن میں بعض ؎ گاہ باشد کہ کودک نادان بغلط بر ہدف زند تیرے کے اصول پر صحیح بھی ہو جاتی ہے۔ دوسرے یہ کہ مرزاقادیانی نے جس پیشین گوئی یا الہام کو اپنا نہایت عظیم الشان نشان بتلا کر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا بالکل غلط ثابت کر دیا گیا اور اس کے صحیح ثابت کرنے میں جس قدر تاویلات رکیکہ سے کام لیا جاتا تھا۔ ان کے تاروپود کو ایک ایک کر کے الگ کر دیا گیا۔ تیسرے یہ کہ جس چاند وسورج کے اجتماعی گہن کو مرزاقادیانی اپنی مہدیت اور مسیحیت کے ثبوت میں نہایت موٹے موٹے حرفوں میں لکھ کر پیش کیا کرتے تھے۔ ایسی قلعی کھولی گئی کہ عالم مرزائیت میں لرزہ پڑ گیا۔ حتیٰ کہ خود ان کے معتقدین کے ایمان میں تزلزل پڑ گیا اور آپس میں اطمینان قلب کے لئے مراسلات ہونے لگے اور ان سب مجموعی باتوں کا اتنا اثر ہوا کہ مونگیر واطراف مونگیر میں ایک ایک بچہ پر مرزائیت کی بطالت آفتاب کی طرح روشن ہوگئی اور جہاں کہیں تبلیغ مرزائیت کے لئے مبلغین پہنچے۔ سب سے پہلے فیصلہ آسمانی کی شہادت سنا دی گئی کہ اگر اسکا جواب تمہارے پاس ہے تو خیر، ورنہ آپ فضول وعظ وپند کی تکلیف گوارا نہ فرمائیے۔