احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
تردید نہیں ہوسکتی۔ بلکہ مرزاقادیانی کا یہ الہام بھی ہر ایک کو سنایا جانے لگا کہ جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر ہوئے کسی شخص کو بھی آج تک بجز میرے یہ نعمت نہ ملی۔ عیسیٰ بن مریم اگر آج ہوتے تو جس قدر کام میں کرتا ہوں وہ ہرگز نہ کرسکتے۔ وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں ہر گز نہ دکھا سکتے۔ دنیا میں کم ہی ایسے نبی آئے ہیں جنہوں نے اس قدر معجزے دکھلائے ہوں ۔جس قدر ہم نے دکھائے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ! حاصل یہ کہ انبیاء علیہم السلام کی تحقیر کی گئی۔ جھوٹے الہام شائع کئے گئے۔ عقائد باطلہ کی ترویج واشاعت میں ایڑی سے چوٹی تک زور لگایا گیا۔ عام طور پر تحریر وتقریر میں علمائے کرام صوفیائے عظام کو بحث ومناظرہ کی دعوت دی جانے لگی۔ اشتہارات میں غیر مہذبانہ طریق پر علماء کرام، صوفیائے عظام کومخاطب کیا جانے لگا کہ اگر کسی میں جرأت ہو تو مسجد اور گوشۂ خانقاہ سے نکلیں اور حق کی طلب میں مناظرہ مباحثہ سے جان نہ چرائیں۔ اس طرف اگر جواب جاہلان باشد خموشی یا فضول ہنگامہ آرائی کو ہے۔ نتیجہ سمجھ کر،نا قابل تخاطب سمجھا گیا تو اس کو اسکوت اور اقرار مسیحیت اور مہدویت مرزا پر محمول کر کے عوام میں بدظنی پھیلائی جانے لگی۔ اور وہ وقت بالکل قریب تھا کہ صوبہ بہار کے مسلمان عموماً اور مونگیر واطراف مونگیر کے جاہل مسلمان خصوصاً اگر ان کی خبر نہ لی جاتی اور بذریعہ تحریر وتقریر ان کے عقائد باطلہ کی تردید نہ کی جاتی تو عوام یک بیک بے۔ پناہ ہوکر مرزائیت کے جال میں گرفتار ہوجاتے اور دین وایمان کھو بیٹھتے اور ہمیشہ کے لئے قصر ضلالت میں گر کر ’’خسر الدنیا والآخرہ‘‘ کے مصداق ہو جاتے۔ یکایک رحمت الٰہی جوش میں آئی اور اپنے رسول کریم روحی فداہﷺ کی خیر الامۃ کو افراط وتفریط سے محفوظ رکھنے کے لئے ایک برگزیدہ بندہ کو چن لیا اور سنن الٰہیہ مستمرہ ہے۔ عین وقت پر ان گمراہ شدگان سبیل ہدایت کے لئے ایک رہبر کامل، ہادی فاضل، مورد فضل رحمانی، نوردیدہ غوث جیلانی حضرت جناب مولانا مرشدنا سیدنا ابو احمد سید محمد علی صاحب افاض اﷲ برکات فیوضہ علی رؤسنا کو عنایت فرمایا اور خدانے جناب کے قلب مبارک میں یہ بات راسخ کر دی کہ ان دشمنان دین کے عقائد باطلہ کے اثر سے مسلمانوں کے دل ودماغ کو محفوظ رکھا جائے۔ ’’فالحمد ﷲ علیٰ ذالک‘‘