احتساب قادیانیت جلد نمبر 31 |
|
مرزاقادیانی کی مذکورہ بالا عبارات میں دو باتیں قابل غور ہیں۔ ۱… کسی روسی سیاح کو تبت کی کسی غار سے کوئی انجیل دفن شدہ ملی۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ سیاح مذکور کو کوئی کتاب دفن شدہ ملی ہوگی اور اس نے اس کو انجیل سمجھا ہوگا۔ جویندہ یا بندہ، ماضی قریب میں کسی لیڈی کو کہیں سے قرآن حکیم مدفون ملا تھا۔ جو بقول ملحدین اس قرآن سے مختلف تھا۔ مگر دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ شرارت کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ سوال صرف یہ ہے کہ انجیل معلوم کس نے لکھی؟ مرزاقادیانی تو کہہ دیںگے کہ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سفر ہندوستان میں لکھی۔ جیسے پہلے وہ انجیل یوذ آسف کے متعلق کہہ چکے ہیں۔ لیکن مرزائیوں کی واقفیت اور مومنوں کے ایمان کی حفاظت کے لئے ہم انکشافات ذیل پیش کرتے ہیں۔ علامہ ابوریحان البیرونی ’’الاثار الباقیہ‘‘ متنبیوں کے باب میں لکھتے ہیں۔ ’’ان الفرس کانوا یدینون بما اوردہ زردشت من المجوسیۃ لا یفترقون فیہا ولا یختلفون، الیٰ ارتفاع عیسیٰ وتفرق تلامذتہ فی الاقطار للدعوۃ وانہم لما تفرقوا فی البلاد وقع بعضہم الیٰ بلاد الفرس وکان ابن دیصان ومرقیون ممن استجاب وسمعا کلام عیسیٰ واخذامنہ طرفاً ومما سمعا من ذردشت طرفاً واستنبط کل واحد من کلا القولین مذہباً ینضن القول بقدم الاصلین واخرج کل واحد منہما انجیلا نسبہ الی المسیح وکذب ماعداہ وزعم ابن دیصان ان نور اﷲ قد حل قلبہ۰ ولکن الخلاف لم یبلغ بیحیث یخرجہما واصحابہما من جملۃ النصاریٰ ولم یکن انجیلاہما مبائنین فی جمیع الاسباب لانجیل النصاریٰ بل زیادات ونقصان وقع فیہما ثم جاء من بعدہما مانی تلمیذ فادرون وکان عرف مذہب المجوس والنصاریٰ والثنویۃ فتنباء وزعم ان الحکمۃ والاعمال ہی التی لم یزل رسل اﷲ تاتی بہا من زمن دون زمن فکان مجیئہم فی بعض القرون علی یدی الرسول الذی ہو البدالی بلاد الہند وفی بعضہا علی یدی عیسیٰ الی الارض المغرب ثم نزل ہذا الوحی وجائت ہذہ النبوۃ فی ہذا القران الاخیر علی یدی وانا مانی رسول الہ الحق الی ارض بابل وذکر فی انجیلہ انہ الفارقلیط الذی بشیہ المسیح وانہ خاتم النبیین وصنف کتبا کثیرۃ کانجیلہ وشابوقان وکنزاً لاحیاء ومقالات کریۃ زعم فیہا انہ بسط مارمزبہ المسیح وسعت الا صبہبذ